فرشتے، ضیا الحق اور گھگہ صاحب


مرحوم صدر ضیا الحق کے زمانے میں اک گھگہ نام کے بزرگ سیاستدان ہوا کرتے تھے۔ اب وہ بھی مرحوم ہو گئے ہیں بوجوہ نام نہیں لکھ رہا۔ وہ بزرگ سیاستدان علاقائی سیاست اور خاندانی ووٹوں کے زور پہ اسمبلی میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ ویسے سیدھے سادے بھلے مانس آدمی تھے۔ غالباً باقاعدہ تعلیم یافتہ نہیں۔ تقریر کبھی کی ہی نہیں۔ نا ہی کبھی تحریر و تقریر کی ضرورت پڑی۔ ویسے بھی تقریر کا جوہر الیکشن کے دنوں میں آزمایا جاتا ہے جب کھوکھلے نعرے اور جھوٹے وعدے وعید کر کے لوگوں کا لہو گرما کے ووٹ مانگنے ہوتے ہیں۔ گھگہ صاحب لوک دانش خوب سمجھتے تھے اپنے علاقے کے تقریباً ہر گھر ہر فرد سے واقف تھے۔ ان کی خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے اس لیے تقریر کے بغیر ہی ووٹ لے لیتے۔

شومئی قسمت صدر ضیاء الحق صاحب اک دفعہ پاک پتن تشریف لے گئے۔ یہی گھگہ صاحب کا حلقہ تھا (حلقہ احباب حلقہ اثر)۔ سٹیج تیار اور حسب روایت سبھی ضیا کی شان میں قصیدے پڑھتے۔ محفل میں سول اینڈ ملٹری بیوروکریسی کی اک سے بڑھ کر ایک شخصیت حاضر تھی۔ گورنر، وزیر، مشیر، آئی جی، سیکریٹری حضرات سبھی سٹیج پر آتے اور ضیا الحق کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے۔ زبان حال سے ضیا الحق کی شان میں وہ وہ باتیں کی گئیں جن کا خود ضیا الحق صاحب کو بھی پہلی مرتبہ علم ہوا۔

مشہور زمانہ راگ درباری میں رنگ محفل عروج پر تھا۔ وہ وہ تانیں وہ وہ گرہیں لگائی گئیں کے الامان الحفیظ۔ گھگہ صاحب سے بھی رہا نہ گیا جذبہ شوق نے انگڑائی لی ان کا بھی دل کیا کے ضیا الحق کے حضور گل ہائے عقیدت نچھاور کریں۔ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ وہ بھی اپنے حسن بیاں سے وہ شرارے نکالیں جن سے دلوں کے خرابے ہوں روشن۔ سب نے بھرپور کوشش کی ہے مگر پھر بھی کچھ کمی کمی سی ہے۔ احباب کو گھگہ صاحب کی زبان دانی اور عروج ذوق خیال کا خوب پتا تھا سٹیج پر سراسیمگی پھیل گئی۔

سٹیج سیکریٹری اور کچھ احباب نے کوشش کی کے گھگہ صاحب کی شعلہ نوائی پہ قدغن رہے۔ یہ چنگاری کہیں بڑھ کے شعلہ جوالا نہ بن جائے۔ ان کے حسن داد سے کوئی مشکل نہ بن جائے۔ سب نے منع کیا گھگہ صاحب جانے دیں آپ کیوں زحمت کرتے ہیں ساری عمر آپ نے یہ تکلیف نہیں اٹھائی پھر آج کیوں دامن دل مائل بہ کرم ہے۔ آپ کی ضیا الحق صاحب سے محبت و عقیدت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ کی ملک و قوم کے لیے خدمات کسی اظہار کی محتاج نہیں۔

گھگہ صاحب نے کہا انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے صرف چند باتیں عرض کرنی ہیں۔ سبھی لوگ سٹیج پر جا کر شاہ کی مدح سرائی کررہے ہیں ضیا صاحب میرے حلقہ میں تشریف فرمایا ہیں۔ مہمان نوازی کا تقاضا ہے کچھ ہم بھی کہیں کچھ ہم بھی سنیں۔ اب اگر میں سٹیج پر نہ گیا تو میری عزت نہیں رہتی۔ میری پگ کا سوال ہے کل میں کس منہ سے لوگوں کا سامنا کروں گا۔ کل کو سب کی سٹیج پر کھڑے ہونے کی تصویر ہو اور میری تصویر نہ تو شرمندگی کی بات ہے۔

سب لوگ سٹیج پہ آئے لیکن میں نہیں آیا شریکے میں میری ناک کٹ جائے گی۔ گھگہ صاحب کا تکیہ کلام ہی دھی (بیٹی) کی گالی تھا۔ گھگہ صاحب پیار سے بھی بات کرتے تو سب کو اسی طرح مخاطب کرتے۔ گھگہ صاحب کا مقصد کسی کی تضحیک یا توہین ہرگز نہ ہوتا مگر اگلے وقتوں کے بڑی عمر کے لوگوں کی طرح یہ ان کی عادت ثانیہ تھا۔ قصہ مختصر گھگہ صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور کہنے لگے ”ضیا صاحب کوئی بندے ہیں۔ پوری محفل میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔

گھگہ صاحب نے دوبارہ سمع خراشی کی، میں کہتا ہوں ضیا صاحب کوئی بندے ہیں۔ ساری محفل کو سانپ سونگھ گیا کاٹو تو لہو نہیں۔ پتا نہیں پیر صاحب کون سا سانپ نکال لیں۔ گھگہ صاحب نے ہی سکوت توڑا اور دوبارہ گویا ہوئے ضیا صاحب کوئی بندے ہیں دھی۔۔۔۔ دے فرشتے ہیں فرشتے۔ گھگہ صاحب کی مدح سرائی سن کر سارا مجمع ہنسنے لگا۔ راوی بتاتے ہیں ضیا خود بھی منہ پہ رومال رکھ کر اس عزت افزائی اور مہمان نوازی پہ مسکراتے رہے یا منہ چھپاتے رہے۔
جج ارشد ملک صاحب بھی فرشتے ہیں فرشتے۔ بقول گھگہ صاحب۔۔۔ دھی۔۔۔ فرشتے ہیں فرشتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).