گم شدہ بغداد کی کہانی: مرے بچے یہاں پر کھیلتے تھے


کاظمین کے ٹیکسی سٹینڈ پر حسب وعدہ میرا ٹیکسی ڈرائیور منتظر تھا۔

گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے منتدرل الزیدی Muntader۔ al۔ zaidi کی بش پر جُوتا پھینکنے والی شہرہ آفاق نظم کو پھر سُننے کی خواہش کی۔

افلاق ہنسا۔

” بس اسے ہی سنتے جانا ہے۔ نہیں آج آپ نئی چیزیں سُنیں گی۔ “

پھر گاڑی میں ایک دلکش آواز گونجی تھی۔ کیا آواز تھی اور کیا گیت تھا؟

معلوم ہواتھا کہ یہ Give me love کے Songs of the Broken hearted Baghdad سیریز کا ایک گیت ہے اور گلوکار سیدعبود ہے افلاق نے عربی میں گاتے ہوئے اُس کا تھوڑا سا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔

گانے سنتے، جگہوں اور عمارتوں کے بارے میں باتیں کرتے کہیں چھوٹی، کہیں بڑی سڑکوں اور چوراہوں سے گزرتے، اردگرد دیکھتے، نیشنل پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت نظر آئی تھی۔

عراقی گورننگ کونسل کے بارے میں جانکاری چاہ رہی تھی کہ سارے دلّے اور بھڑوے ہی ہیں یا کوئی کام کا دانہ بھی ہے۔

افلاق ہنسا تھا۔ کام کا دانہ کیسے چلے گا؟ ضمیر فروشوں اور بے غیرتوں کے ٹولوں میں۔

ہمارا وہ شہرہ آفاق شاعر سعدی یُوسف سچا اور پکا انقلابی سوشلسٹ نظریات کا حامل گذشتہ آمر کے دور میں بھی باہر تھا اور اب جب وہ ہمارے سکے سو دھرے (خیرخواہ ہمدرد) ہمیں اُس ظالم سے نجات دلانے ہوا کے گھوڑوں پر تیرتے ہماری زمین پر آگئے ہیں۔ سعدی یوسف اپنے وطن، اپنے گھر نہیں آسکتاکہ اُس کا نام ناپسندیدہ لوگوں کی فہرست میں پھر سے شامل ہوگیا ہے۔ بصرہ اُس کا آبائی شہر ہے اور وہ زمانوں سے پیاسا پھر رہا ہے۔ پہلے صدام سے خائف تھا۔ اب ہمارے اِن نئے نجات دہندوں نے اُسے بین کردیا ہے۔

اپنے گہرے دوست مظفرالنواب کو خود پر عائد پابندی بارے بذریعہ نظم اطلاع دیتے ہوئے سعدی یوسف نے لکھا تھا۔

”ان کی فہرستیں، میں تھوکتا ہوں اُن پر۔ میں اُنہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اہل عراق جو اِس سرزمین کی تاریخ کے وارث ہیں۔ ہمیں اپنی بانس کی معمولی سی چھت پر بھی بڑا فخر ہے۔ “

عراقی میوزیم نے بہت وقت لے لیا تھا۔ کچھ اور دیکھنے کی متمنی تھی کہ وقت بھی تو تھوڑا ہے۔ جب میں نے اس کا اظہار کیا افلاق ایک اچھے بیٹے کی طر ح بولا۔

”آرام۔ تھوڑا سا آرام۔ تھکن آپ کے چہرے سے دُھواں دھار قسم کی بارش کی طرح برس رہی ہے۔ موسم بھی اسوقت انتہا پر ہے۔ میں چھ بجے آپ کو پک کروں گا۔ “

اُس نے مجھے 14 رمضان مسجد تحریر سکوائرمیں اُتارا۔ صد شکر کہ مشرق وسطیٰ میں مسجدوں میں عورتوں کا حصّہ بھی ہے۔ یہاں خوبصورت قالین بچھے تھے۔ خوشگوار اور لطیف سی ٹھنڈک کا رچاؤ فضا میں گھلا ہوا تھا۔

تھوڑا آرام کسری نماز سے فارغ ہوکر باہر آگئی تھی۔ ٹریفک میں تیزی اور لوگوں کے ہُجوم بڑھ رہے تھے۔

Kahwa wa Kitab cafe in Baghdad on July 5, 2018. (Photo by Alice Martins)

”چلو اچھا ہے میں ادھر ادھر گھومتی ہوں۔ “

ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ قہوے اور حمس کا آرڈر کرنے کے بعد اردگرد کی رونقیں دیکھنے لگی جب دو اُدھیڑ عمراور ایک نوجوان لڑکی وہاں آکر بیٹھیں۔ دونوں عورتیں سرخ و سفید، صحت مند جن کے غیر معمولی بھاری سینے اور کولہے عباؤں سے بھی چھلکے پڑتے تھے۔ نوجوان لڑکی نے سکارف اور کھلے بازؤوں والی لمبی سی قمیض نما میکسی پہن رکھی تھی۔ سینوں پر لہراتی بل کھاتی صلیبی زنجیروں نے مجھے بتا دیا تھا۔ میں خوشدلی سے ان کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ جواباً انہوں نے بھی محبت بھری مسکراہٹ بکھیری۔ حوصلہ پا کر میں ان کی ٹیبل پر گئی اور تعارف کے مراحل طے ہوئے۔

ڈیلی کریم اور جوزفین سیاب جن کے آباواجداد کوئی 1604 کے لگ بھگ ایران سے یہاں آئے تھے۔ ڈیلی کریم شمالی عراق کے شہر موصل سے تھی یوں دونوں کی پیدائش اور بچپن جوانی سب بغداد سے منسلک تھے۔ ڈیلی کی شادی موصل میں ہوئی۔ اور وہ ابھی بھی وہیں تھی جبکہ جوزفین 1998 کے بعد سویڈن چلی گئی۔ کوئی نو دس سال بعد وہ بغداد آئی تھی۔ دونوں سہیلیاں بغداد کے نوسٹلجیا میں مبتلا تھیں۔ انہیں اپنے بچپن کاوہ بغداد نہیں بھولتا تھا۔ اُنکی یادوں میں بسا وہ شہر جو کوسموپولٹین تھا۔ جو بڑا ماڈرن اور ملٹی کلچرل تھا، جس میں رواداری اور برداشت کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا۔ مختلف مذاہب کی رنگا رنگی جس کا حسن تھا۔ دُکھ تھا۔ کرب کا واضح اظہار تھا جوزفین سیاب کے لہجے میں۔ آنکھوں میں اُتری نمی بھی بہت کچھ کہتی تھی۔

ہمارے آبائی گھر یہیں اِس پرانے بغداد کی اِسی شاہراہ رشید کی اطرافی گلیوں میں تھے۔ ہماری عیدیں، رمضان، کرسمس، گڈ فرائی ڈے سبھی مشترکہ تھے۔ یہیں ہماری یہودی خالہ رہتی تھی جو بعد میں بغداد کے جنوبی حصّے میں بنے جیوش کواٹر میں چلی گئی تھی۔

میری ماں کی جگری سہیلی جسے ملنے کے لئے جانے کا ہمیں کتنا ارمان اور جنون رہتا تھا۔ جب کبھی ان کے ہاں جانے کا پروگرام بنتا ہم بہنیں اُچھل اُچھل کر ایک دوسرے سے کہتیں۔ ” سوق حنونی (حنونی بازار) میں پھریں گے۔ ہائے فوابینز (Fawa Beans) بھی کھاہیں گے۔ “ میری چھوٹی بہن زبان تالو سے لگاتے ٹخ ٹخ کی آواز نکالتے ہوئے مستی میں آنکھیں نچاتی۔ ”کتنا مزہ آئے گا۔ “

Baghdad Photo-credit-Leon-McCarron

بلند و بالا خوبصورت بالکونیوں والے گھروں کی گلیوں میں غریب عراقی عورتیں Fawa Beans بیچا کرتی تھیں۔ اُسے چولہوں پر دھرے بڑے بڑے پتیلوں میں پکی فوابین کھانا کتنا پسند تھا؟ جوزفین تو ہمیشہ اُوپر سادہ دہی ڈلواتی پرنینی کوDibis (کجھوروں کی چٹنی) ڈلوانا مزہ دیتا تھا۔

” میرے اُس بغداد کو نظر لگ گئی ہے۔ “ نمی موتیوں کی صورت نچلی پلکوں میں ٹھہر گئی تھی۔

میرے اندر سے ہوک سی اٹھی تھی ہائے میرا لاہور اور کراچی بھی پچاس، ساٹھ ستر 70 کی دہائی میں ایسے ہی تھے۔ میرا کراچی تو عروس البلاد تھا جس کی راتیں جوان رہتی تھیں۔ میرے لاہور کا کیا کہناتھا۔ مارڈالا ہمیں فوجیوں، سیاستدانوں کے مفادات اور ملاؤں کی انتہا پسندی نے۔ کچھ ایسا ہی رونا یہ ڈیلی رو رہی تھی۔

خلیجی جنگ میں بھی بہت نشانہ بنے۔ عراق پر امریکی حملے سے ہماری کیمونٹی بہت متاثر ہوئی۔ صدام کے بارے میں بات ہوئی تو کہنے لگی ”ہماری کیمونٹی کواُس کے زمانے میں بہت سہولتیں حاصل تھیں۔ بہت آزادی تھی ہمیں۔ صدام جانتا تھاہم امن پسند لوگ ہیں۔ “

کیتھولک عیسائیوں اور آرتھو ڈوکس آرمینیاؤں کی عراقی کلچرو لڑیچر اور موسیقی میں بڑی خدمات ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

ہماری جوانی میں ہی جیوش کواٹر ویران ہوگیا تھا کہ ہمارے سب ملنے والے یہودی اپنی جائیدادیں بیچ باچ کر اسرائیل چلے گئے مگر ہم عیسائی کہاں جاتے؟

ڈیلی کریم کی آنکھیں گیلی سی ہو گئی تھیں۔

”موصل میں ہماراٹورزم کا بڑا بزنس تھا۔ نینوا میں میرے سسرال کے عالیشان ہوٹل تھے جو تباہ و برباد ہوگئے۔ اب انہیں بیچنا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ موصل میں عیسائی کیمونٹی خاصی تعداد میں تھی جو اب بہت تھوڑی رہ گئی ہے جن میں ہمارے جیسے عراق کی محبت میں لتھڑے لوگ ہیں۔

یہ کیسا اندھا تعصب پھیل گیا ہے کہ جسنے اُن ساری حسین روایات کو نگل لیا ہے؟ چرچوں کے خلاف نفرت بھڑکائی جارہی ہے۔ موصل میں دو بڑے چرچ نشانہ بنائے گئے۔ گذشتہ ماہ رمضان میں ایک ہینڈ بل چرچوں میں پھینکا گیاکہ جسمیں عیسائی کیمونٹی کو اپنے گہنگار سروں کوڈھانپنے کے لئے کہا گیا وگرنہ دوسری صورت میں موت کا سامنا کرنے کی دھمکی تھی۔ یہ دھمکی القاعدہ یا زرقاوی کی طرف سے نہیں تھی بلکہ مسلم عراقی سٹوڈنس موصل کی جانب سے دی گئی تھی۔

خوبصورت لڑکی ملّی پہلی بار گفتگو میں شامل ہوئی۔

”فرانس میں جن دنوں حجاب کا مسئلہ حکومتی سطح پر زیربحث تھا۔ اُن دنوں زیادہ شدت تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ وہاں موت کی دھمکیاں تو نہیں دی جارہی تھیں۔

میں نے لمبی سانس بھرتے ہوئے اُن تینوں کو دیکھا اور کہا تھا۔ ”میرے ملک کو بھی کِسی کی نظر کھاگئی۔ ہم تو خود اسی ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔ “

مغرب کی اذانیں گونجنے لگیں۔ بتیوں کی پھیلتی جگمگاہٹوں میں منظروں کی دل رباعی بڑی اپنایت لئے ہوئے تھی۔ لاہور کی مال روڈ کے منظر رقص کرنے لگے تھے۔

میں نے ڈیلی اور اُس کی عزیزہ جوزی سے اجازت لی۔ مسجد آئی۔ مغرب کی نماز پڑھی۔ باہر نکلی افلاق انتظار میں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).