منٹو کا افسانہ ”ساڑھے تین آنے“: اگلی نسل کے لیے لکھی ایک تحریر


صدیق رضوی کی بات یہاں ختم نہیں ہوئی تھی آگے وہ جو کہتا ہے وہ پہلی قرات میں آپ کو ایک زندگی سے ناراض مجرم کا بیانیہ لگے لیکن دراصل وہ جرم و سزا کے بنیادی فلسفے پہ گہری چوٹ کرتا ہے۔ (اور اس نے کیا کہا یہ جاننے کے لیے افسانہ پڑھیے)

اس افسانے کی گہرائی سمجھنے کے لیے جہاں ایک طرف ایک معاشرے میں جرم و سزا کے کردار کو سمجھنے کے لیے مختلف معاشروں میں اس کے پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے، وہیں ایک کورا ذہن رکھنے والے بچے جیسی سوچ کا حامل ہونا بھی ضروری ہے جب آپ نے بہت سی معاشرتی روایتوں کو بطور کائناتی سچائی قبول نہیں کیا ہوتا۔ ”جرم کِیا گیا ہے تو سزا ہوگی“ ایسی ہی ایک روایت ہے جو ہمارے ذہنوں میں کائناتی سچائی کی طرح راسخ ہے۔ ہم سوال نہیں اٹھاتے کہ جرم ہوا ہی کیوں اور کیا دی جانے والی سزا سے اس جرم پہ کوئی اثر ہو گا کہ نہیں۔

ہم ہر جرم کی توجیح اخلاقیات سے دوری قرار دیتے ہیں کیوں کہ یہ جرم ختم کرنے سے زیادہ آسان امر ہے۔ جہاں بطور معاشرے کے فرد ہمیں کچھ نہیں کرنا۔ جرم، مجرم نے کر دیا، سزا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دے دی اور غلطی صرف اس فردِ واحد کی تھی جس نے مان لیا کہ جرم اس نے کیا یا جس کے خلاف حالات و واقعات نے ثابت کردیا کہ وہی مجرم ہے، اللہ اللہ خیر سلّا۔

مگر یہ افسانہ آپ کے ان نظریات کو ہر دوسری سطر میں چلینج کرے گا۔ افسانے کے ابتدائی حصے میں منٹو لکھتے ہیں:
”ہماری گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ آیا جیل مجرم کی اصلاح کرسکتی ہے۔ میں خود محسوس کر رہا تھا۔ ہم ایک باسی روٹی کھا رہے ہیں۔“

کتنی عجیب بات کہ سزا و جزا کی یہ بحث جو اب خال خال نظر آتی ہے اُس دور میں باسی روٹی بن چکی تھی مگر کیا واقعی منٹو اور صدیق رضوی کا نظریہ بھی باسی روٹی تھا یا ہے؟ صدیق رضوی کہتا ہے:
”میں منٹو صاحب سے اتفاق کرتا ہوں چونکہ میں جیل میں رہ چکا ہوں اس لیے میری رائے نا درست نہیں ہو سکتی۔“

پھر آگے کہتا ہے:
”اور یہ لطیفہ نہیں کہ اس حقیقت کو جانتے پہچانتے ہوئے بھی ہزار ہا جیل خانے موجود ہیں۔“

ایک جگہ منٹو نے رضوی کے زبانی وکٹر ہیوگو کی ناول کا اقتباس بہت عمدہ طریقے سے شامل کیا۔
”منٹو صاحب، غالباً آپ ہی کا ترجمہ تھا۔ کیا تھا؟ وہ سیڑھی اتار دو جو انسان کو جرائم اور مصائب کی طرف لے جاتی ہے۔“

جب بات چیت پھگو بھنگی اور اس کی سزا تک پہنچتی ہے تو صدیق رضوی کہتا ہے:
”جی ہاں۔ صرف ساڑھے تین آنے کی چوری پر۔ اور جو اس کو نصیب نہ ہوئے، کیونکہ وہ پکڑا گیا۔ یہ رقم خزانے میں محفوظ ہے اور پھگو بھنگی غیر محفوظ ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے وہ پھر پکڑا جائے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس کا پیٹ پھر اسے مجبور کرے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس سے گُو موت صاف کرانے والے اس کی تنخواہ نہ دے سکیں، کیونکہ ہو سکتا ہے اس کو تنخواہ دینے والوں کو اپنی تنخواہ نہ ملے۔ یہ ہو سکتا ہے کا سلسلہ منٹو صاحب عجیب وغریب ہے۔ سچ پوچھیے تو دنیا میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ رضوی سے قتل بھی ہوسکتا ہے۔“

ہوسکتا ہے آپ سمجھے ہوں کہ صدیق رضوی بس یونہی صدیق رضوی ہے اور پھگو بھنگی یونہی ایک کردار جس کی شاید کوئی علت نہیں مگر سوچیے کہ ایک طرف مسلم معاشرے کی سب سے اعلیٰ ذات ہے اور دوسری طرف ہر معاشرے کا سب سے ذلیل پیشہ۔

صدیق رضوی نے یہ کیوں نہ کہا کہ ”صدیق سے قتل بھی ہوسکتا ہے“ یا اپنا پورا نام کیوں نہ لیا۔ یہاں خود کو رضوی کہنا کیا مقصد رکھتا تھا؟ یہاں رضوی، صدیق رضوی نہیں بلکہ وہ سید طبقہ ہے جو ہمیشہ سے مسلم معاشرے میں سب سے اعلیٰ اور عیب سے مبرّا سمجھا جاتا رہا ہے۔

ہم ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اگر دو چرسی نشہ کر رہے ہوں تو غیر سید چرسی، سید چرسی کو اپنی چرس پیش کرتا ہے کہ پہلے وہ اس کی چرس کو پھونکنے کا شرف بخشے۔ سوچیے اکیسویں صدی میں سید کا یہ مقام ہے تو بیسیوں صدی میں کتنا رہا ہوگا وہاں منٹو کا بنیادی کردار نا صرف سید ہے بلکہ قاتل ہے۔ مگر ساتھ ہی مجبور بھی۔ صدیق رضوی جہاں غربت کی لکیر کا نمایندہ ہے وہاں پھگو بھنگی غربت کی لکیر سے کہیں نیچے دکھائی دے رہا ہے۔

منٹو نے کبھی پھگو اور کبھی صدیق کی زبانی کئی افسوس ناک اور تاریک سچائیاں بیان کیں۔ ایک جگہ پھگو کہتا ہے مجھے معلوم ہے کہ میں دوبارہ جیل آؤں گا، بھوکے انسان کو چوری کرنی ہی پڑتی ہے، جیسے بھوکے انسان کو کھانا کھانا پڑتا ہے۔

پھگو ایک ایسا کردار تھا جس نے کبھی ساڑھے تین آنے چرائے اور کبھی ایک بیڑی چراتے ہوئے ٹخنے کی ہڈی تڑوائی دونوں دفعہ پکڑا گیا، اور برآمد شدہ ”مال“ سرکاری خزانے میں گیا۔ مگر جب اسے معلوم تھا کہ صدیق اسے بیڑی دے دے گا تو کبھی منگوائی گئی بیڑیوں میں سے کچھ نہ چرایا۔

کیا آپ اس سطح کے ایک ایماندار شخص کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جب اُسے بیوی یا بیٹے کی اولاد کے لیے پیسے اور دوا چرانی پڑے اور پھر بھی انہیں نہ بچا سکے؟

کیا آپ معاشرے کی سب سے معزز ذات سے تعلق رکھنے والے کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جب زندگی بھر کے لیے اس کے نام کے ساتھ قاتل لکھ دیا گیا ہو؟

سوچیے کیوں کہ اسی لیے منٹو نے یہ سب لکھا تھا۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima