سیاسی نابالغ اور خوش فہمیاں


بلال میرے انتہائی قریبی رفقاء میں سے ایک ہے۔ فارغ وقت میں میرا زیادہ تر وقت اسی کے ساتھ گزرتا ہے۔ بلال کی باقی عادات تو بہت اچھی ہیں لیکن خوش فہمی اس کی سب بڑی خامی ہے۔ کوئی بھی نیا کام کرنے سے قبل اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔ جس کے بعد رہی سہی کسر اس کی بری قسمت پورا کرتی ہے۔ قصہ مختصر اس کا کوئی کام بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ کچھ روز قبل بلال نے بسلسلہ روزگار لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ والدین سمیت تمام احباب کو یقین دلایا کہ میری لاہور میں ملازمت ہو گئی اور تنخواہ بھی انتہائی مناسب ہے۔

جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے اسے واضح الفاظ میں میڈیا پر آئے بحران کے بارے میں بتایا لیکن شاید میری یہ بات اس کے پلے نہ پڑی۔ تقریباًایک ہفتہ لاہور جانے کا خوب شور مچایا۔ والدین اور اہل وعیال کو بھی امید تھی کہ لاہور میں بلال کو ملازمت مل چکی ہے۔ ایک ہفتے بعد جب بلال نے اپنے اس دوست سے رابطہ کیا جس نے نوکری دلوانے کا وعدہ کیا تھا تو اس کا نمبر بند تھا۔ اگرکبھی فون آن بھی ہوتا تو وہ بلال کا فون سننے سے گریز کرتا۔ یوں ہر بار کی طرح بے وجہ شور مچانے کے باعث اسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

معاشرے میں بلال جیسے کئی افراد موجود ہیں جو شیخ چلی کی طرح صرف خیالی پلاؤ پکاتے رہتے ہیں۔ کبھی نیا کاروبار شروع کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں تو کبھی ملازمت کا شوروغل مچاتے ہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی بزرگوں کو یہ کہتے سنا کہ کسی کام کو کرنے سے قبل شور مچانے سے اس سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔ مطلب خاموشی سے اپنی کامیابی کے لیے تگ و دو کریں اور آپ کی کامیابی خودبخود دنیا پر عیاں ہو جائے گی۔ شیخ چلی کے خیالی پلاؤ کا تذکرہ ہوا تو ہمارے ملک کے سیاستدان بھی اس میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ ہر الیکشن میں سیاسی شخصیات عوام کو نت نئے خواب دکھاتے ہیں۔ کبھی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تو کبھی پاکستان کا قرض اتارنے کے دلاسے، ہر سیاسی جماعت اپنا چورن بیچنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اِنہیں اقتدار کانٹوں کا بستر نظر آتا ہے۔

حکمران طبقے کی مثال گھر کے سربراہ کے جیسی ہوتی ہے جس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہر فرد کی ضروریا ت کو پورا کرے۔ آمدن اور اخراجات کے حوالے سے کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ گھر کے دیگر افراد بس اپنی اپنی ضروریات بتاتے جاتے ہیں اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں پورا کرے۔ اپنے گھر کے معاملات کو چلانے کے لیے اس کو کتنی دقت اور مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے اس کا ادراک کبھی اپنے اہل خانہ کو نہیں ہونے دیتا۔

کچھ ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ کے عہدے پر رہ کر بطور گھر کے سربراہ کی ذمہ داریاں نبھائی۔ کسی کو اس بات کا گمان نہ ہونے دیا کہ ملکی خزانے میں کتنی رقم باقی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے اور (ن) لیگ سے اقتدار چھیننے کی غرض سے ملکی معیشت کا سہارا لیا۔ گلی محلوں میں ڈھول پیٹا گیا کہ پاکستا ن کا خزانہ بالکل خالی ہے جس کی اصل ذمہ دار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہے۔ عوام کو بھی نیا چورن زیادہ پسند آیا اور یوں نئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ ہمارے ملک کے سیاستدان اقتدار میں آنے سے قبل سمجھتے ہیں کہ تمام ملکی مسائل بس ان کی ایک چٹکی سے حل ہو جائیں گے۔

پی ٹی آئی کے تھنک ٹینک اور ماہر معاشیات اسد عمر کی خوش فہمی کہوں یا پھر کم علمی کہ انہوں نے ملکی معیشت کو سنبھالنے کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے اقتدار میں آنے سے قبل دعویٰ کیا کہ ملکی خزانے کو بحرانوں سے نکالنے کا جن پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس ہے۔ حکومت بننے کے چند ماہ بعد ہی غیر ملکی سرمایہ کار وں نے پاکستان سے دوریاں اختیار کر لیں۔ یقینی بات ہے کہ کسی بھی کمپنی کی مینجمنٹ اتنی بے وقوف نہیں ہوتی کہ ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرے جس کے حکمران چیخ چیخ کر کہہ رہے کہ خزانے خالی ہو چکے ہیں اور سوائے چند ایک کے تقریباً تمام ادارے بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا شاید اتنا دشوار نہ ہوتا اگر الیکشن کے دنوں میں روزوشب معیشت کی بد حالی کا راگ نہ الاپا جاتا۔

موجودہ حکومت ہر معاملے میں خوش فہمیوں کا شکار ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں پی ٹی آئی قیادت (ن) لیگی حکومت کو میٹرو بس میں کرپشن اور مہنگے منصوبوں کا طعنہ دیتی رہی۔ لیکن خیبرپختونخوا میں اچانک انہیں عوامی خدمت کا خیال آیا اور بی آر ٹی منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ پاکستانی تاریخ کا سب سے وسیع اور سستا منصوبہ ہے۔ کے پی کے حکومت کے دعوؤں کے باوجود یہ منصوبہ کئی مشکلات کا شکار ہے۔ کبھی ناقص میٹریل تو کبھی نکاسی آب کا انتظام نہ ہونے کی خبریں پی ٹی آئی قیادت کا منہ چڑھانے کے لیے کافی ہیں۔

یہ حال صرف پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ ہر سیاسی جماعت کا ہے۔ (ن) لیگی رہنما شہباز شریف بھی کئی خوش فہمیوں کا شکار رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2013 کے الیکشن میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آصف زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور ملکی خزانے سے لوٹی گئی ایک ایک پائی وصول کریں گے۔ زرداری فیملی کو سڑکوں پر گھسیٹنے میں انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی لیکن جیل کی سلاخوں سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کی امداد میں مصروف عمل ہیں۔

سابقہ حکومت کی طرح موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے کرپشن کے خلاف ایک مہم چلائی۔ ملکی معیشت کو بحرانوں کی دلدل سے نکلتا مشکل دیکھ کر انہوں نے کرپٹ شخصیا ت سے وصولیوں کا فیصلہ کیا اور سب سے پہلے سیاستدانو ں کا احتساب کرنے کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ وہ نواز شریف اور آصف زداری سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک میں چھپائی گئی عوام کی رقم واپس لے کر آئیں گے۔ عدالتی احکامات پر دونوں رہنما جیل میں ہیں لیکن حکومت ان سے ایک روپیہ بھی نکلوانے میں ابھی تک ناکام ہے۔ چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے دونوں رہنماؤں کو پلی بارگین کی دعوت دیتے ہوئے خود ہی یوٹرن لے لیا۔

ہمیشہ کی طرح حکومتی وزراء اور مشیر اپنی کامیابیوں کے گن گاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جوش خطابت میں ایسے دعوے کر تے ہیں جن کا حقیقی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ چند روز قبل ایک خبر آئی کہ پاکستان نے سفارتی سطح پر بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ امریکی صدر کے بعد وزیراعظم پاکستان کو روسی صدر نے کثیر الملکی ایسٹرن اکنامک فورم میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ اتنی بڑی سفارتی کامیابی کی خبر سنتے ہی ملک بھر میں تقریباً دو روز خوشی کے ترانے گائے گئے لیکن یہ خوشی کی خبر دیرپا ثابت نہ ہوسکی۔

روسی دفتر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کو دعو ت کے حوالے سے خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم کو دورہ روس کی کوئی دعوت نہیں دی گئی۔ عارضی طور پران افواہوں کے باعث پی ٹی آئی حکومت کو شہرت ملی لیکن دو روز بعد ہی یہ شہرت عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا سبب بنی۔ خوش فہمی ہزار نعمت ہے مگر جب یہ غلط فہمی ثابت ہوتی ہے تو شرمندگی اور مایوسی کے آثار چھوڑ جاتی ہے۔

پی ٹی آئی قیادت نے الیکشن مہم میں جو دعوے کیے ابھی تک ان کا حقیقت سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا خواہ وہ ایک کروڑ نوکریوں کی خوشخبری ہو یا پھر اپنے گھر کا دلاسا۔ اگر آپ سیاست میں نئے ہیں تو معاملات کو سمجھیں نہ کہ بلند وبانگ دعوے کریں۔ اگر وزراء اور مشیر اپوزیشن سے ٹکر لینے کی غرض سے عوام کو نت نئی خوشخبریاں سنائیں گے جن کا دور دور تک حقائق سے کوئی واسطہ ہی نہیں تو دیگر سیاسی جماعتوں اور پی ٹی آئی میں فرق کرنا عوام کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

عوام الناس کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے سے گزارش ہے کہ خوش فہمیوں کی دنیا سے باہر نکلیں اور حقیقت کو اپنائیں۔ عارضی مفادات کے لیے بلندوبانگ دعوے کرنے سے ناصرف آپ کی شخصیت متاثر ہوتی ہے بلکہ قول و فعل میں بار بار تضاد آنے سے کارکردگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں میں مبتلاہونا طبعی امر ہے لیکن حقیقت جاننے کے باوجود اس پر ڈٹے رہنا فرد واحد اور معاشرے دونوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).