لاکھوں جانیں دے کر پایا ….عید کارڈ


\"waqarپیارے ہم وطن ! صد مبارک کہ عید قربان آئی ہے اور صد شکر کہ کم از کم تین دن تو ہم انسانوں کی قربانی ترک کر کے جانور ذبح کریں گے ۔ کیا عجب کہ اہل ایمان عیدالالضحیٰ کے بعد بندوں کو ذبح کرنے کا سلسلہ وہیں سے شروع کر دیں جہاں سے ٹوٹا تھابلکہ ایمان کی حرارت والوں سے کیا بعید کہ وہ یہ سلسلہ ٹوٹنے ہی نہ دیں ۔ دراصل قربانی کے جانور اتنے مہنگے اور انسانی خون اتنا ارزاں ہو گیا ہے کہ ثواب کے متلاشیوں نے سنت ابراہیمی چھوڑ کر انسان قربان کرنا شروع کردیئے ہیں ۔ اس نظریے کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جانور بھی خوشنودی خدا کی خاطر ذبح کیے جاتے ہیں اور بمو ں سے انسانوں کے چیتھڑے بھی خالصتاً ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے اڑائے جا رہے ہیں ۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر قربانی عیدالالضحیٰ کے موقع پر مقررہ اوقات میں دی جاتی ہے جبکہ ثانی الذکر قربانی سارا سال بغیرکسی وقفے اور ٹائم ٹیبل کے جاری و ساری ہے ، جسے ”اجتماعی قربانی“ کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے ۔ قربانی کے جانور کا بالغ ہونا ضروری ہے ، نیز لاغر اور بیمار جانوروں کی قربانی قبول نہیں ، جبکہ اشرف المخلوقات کی قربانی میں ایسی کوئی قدغن نہیں بلکہ یہ قربانی زیادہ تر معصوم بچوں ، عورتوں اور لاغر و لاچار لوگوں ہی کی دی جاتی ہے ۔ ہر دو قربانیوں کا طریقہ کار ضرور مختلف ہے مگر مقصد ایک ہی ہے ، یعنی جنت کا حصول ۔

پیارے ہم وطن ! تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے یہ وطن بے شمار قربانیا ں دے کر حاصل کیا ہے ۔ بس اسی وقت سے ہمیں قربانیوں کا ایسا چسکا پڑا کہ یہ عادت ہمارے خون میں رَچ بس گئی ۔ قیام وطن کے مقاصد سے لے کر آدھے ملک کی قربانی تک ، ضمیر سے لے کر نظریات کی قربانی تک ، وفاداری سے لے کر اصولوں کی قربانی تک اور چھوٹی چھوٹی خواہشات سے لے کر بنیادی حقوق اور ضروریات زندگی کی قربانی تک ، وہ کون سی قربانی ہے جو ہمارے ہاں رائج نہیں؟ ہمارے رہنمائے عظام اکثر تکرار کرتے ہیں کہ وہ ملک وقوم کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔ یہ دعویٰ انہوں نے ہمیشہ سچ کر دکھایا ہے ۔ سرکاری اداروں میں کرپشن اور قومی راز بیچ دینے کے محیر العقول سکینڈلز بارے سب دلچسپی سے سنتے ہیں لیکن اس جرات کی کوئی داد نہیں دیتا کہ اتنے بلند کارہائے نمایاں انجام دینے سے پہلے ضمیر کے گلے پر چھری پھیرنا پڑتی ہے۔ انتخابات کے موسم میں مسلسل جھوٹ بولنا، ٹکٹوں کے لیے رشوت لینا اور دینا، جیتنے کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنا اور پھر منتخب ہو کر لوگوں سے کیے گئے وعدوں کو اپنے ذاتی و گروہی مفادات پر قربان کر دینا بھی تو اسی عظیم جذبہ قربانی کا شاخسانہ ہیں ۔ یادش بخیر! آٹھویں اور سترہویں ترامیم اور ریفرنڈمز کے حق میں ووٹ بھی تو ضمیر کی اجتماعی قربانی کے طفیل پڑے ، اورذرایہ تو بتاﺅ ہم وطن کہ عالیشان بنگلوں میں پر تعیش زندگی گزارنا، لگژری گاڑیوں میں محافظوں کے جلو میں کروفر سے سفر کرنا، سرکاری مراعات ڈکارنا اور پھرمنبر پرسوارہو کر خطبات میں ڈھٹائی سے اپنے اسلاف کی سادگی کی مثالیں دینے کو تم کسی قربانی کا مرہون منت نہیں سمجھتے؟اور کیا ایل ایف او کے تحت حلف اٹھانا، غاصب کو خلعت جواز عطا فرمانااور انصاف کو عہدوںپر قربان کر دینا کسی ایسی قربانی کے بغیر ممکن ہے ؟ یہ قربانی ہی کا حوصلہ تو ہے کہ کتنی مرتبہ جمہوریت اور منتخب پارلیمنٹ کی قربانی آمریت کے حضور خندہ پیشانی سے پیش کی گئی ، مگر پشیمانی یا ندامت کا شائبہ تک نہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہر دو نمبر یا خود کو محسن پاکستان کہلوانے پر مصر ہے ۔

عزیزی ہم وطن ! تم تو میرے عارضے کو جانتے ہو کہ میں اپنی تحریر یا گفتگو کے درمیان بے موقع اور بے محل شعر نہ سناﺅں تو میرے معدے میں تیزابیت پیدا جاتی ہے ۔لو پھرسنو

ہم نے دیکھا ہے کہ دولت کے حسیں کاندھوں پر

لوگ آرام سے غیرت کو سُلا دیتے ہیں

پیارے ہم وطن! جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ان کے دلوں میں بھی قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجزن ہے ۔ خطِ غربت سے نیچے زندگی گھسیٹنا اوراپنے حقوق ،آزادیوں اور بنیادی ضروریات سے محروم ہوکر جانوروں کی سی زندگی گزارنا، اپنے حصے کے وسائل چند لوگوں کے حوالے کر دینا اور اپنے پیٹ کاٹ کر چند لٹیروں کو پالنا کوئی چھوٹی موٹی قربانیاں نہیں ۔ اپنی محبتوں اور خواہشات کی قربانیاں تو خیر کسی قطار میں ہی نہیں آتیں ، یہاں تو عید وغیرہ کے موقع پر اپنے بال بچوں کی ضروریات پوری نہ کر سکنے پر اپنی جانوں کی قربانی دینا بھی معمول کی بات ہے ۔ وطن عزیز کی تاریخ میں ایک سدا بہار حکمیہ جملہ تو ہر حکومت کا ماٹو رہا ہے کہ ”عوام کو قربانی دینا ہو گی “ گویا اس نظریاتی مملکت میں طے ہو چکا کہ لحیم و شحیم چھَتروں اور پیٹ کے بل چاند پر پہنچے بیلوں کی جگہ قربانی ہمیشہ لاغر عوام ہی کی دی جائے گی ۔ سبسڈی کی قربانی ، بجلی و گیس کی قربانی ، جان ،مال اور تحفظ کی قربانی ، اشیائے خوردونوش کی قربانی، غرض ایسی بے شمار قربانیاں ہیں جن کے ہم اللہ کے فضل سے عادی ہو چکے ہیں۔ قدرتی وسائل رکھنا اور کشکول بدست پھرنا بھی تو قربانی کی اعلیٰ مثال ہے ۔

پیارے ہم وطن! اب اجازت چاہتا ہوں ۔ تمہارا بہت وقت لے لیا ہے ، جس کے لیے معذرت خواہ ہوں ۔ تم نے بھی عید کے پر مسرت موقع پر جانیں کیا کیا قربان کرنا ہوگا۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ۔ بس یہ خیال رکھنا کہ قربانی کے جانور کی کھال بارے علمائے کرام میں بہت اختلافات ہیں لہذا سوچ سمجھ کر کسی ادارے کو دینا۔ البتہ قربانی دینے والے کی کھال سے متعلق ان میں کوئی جھگڑا نہیں ، چاہے اُسے قصائی لے جائے یا ڈاکٹر ، حکومت تیل اور بجلی کی قیمتیں بڑھا کر اُتار لے یا مہنگائی کے استرے سے ناجائز منافع خور، کسی پر کوئی فتویٰ ،کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا…. خوب یاد آیا ،میں نے بھی ابھی ان دوست حجاج کرام کی لسٹ بنانی ہے ، جن کو حج کی مبارکباد دینے کے لیے جانا ہے ۔ پچھلے سال بھی میں اپنے پڑوسی حاجی صاحب کو مبارکباد دینے کے لیے گیا تو عجلت میں ایک ”سیر یس مسٹیک“ کر بیٹھا۔ در حقیقت حاجی صاحب مذکو رجب حج پر تشریف لے گئے تو ان دنوں میرے گھر میں کئی روز سے کچھ نہ پکا تھا ۔جب حاجی صاحب نم آنکھوں سے حرم پاک میں گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی داستان دراز کر رہے تھے تو اچانک میرے معدے میںتیزابیت عود آئی اور میں نے بے موقع علامہ اقبال کاایک شعر جڑ دیا کہ

زائرانِ کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی

کیا حرم کا تحفہ زم زم کے سوا کچھ بھی نہیں

بڑی مشکل سے بیچ بچاﺅ ہوا۔

محتاجِ دعا: تمہارا ہم وطن

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments