کچھ باتیں عظیم دانشور دوست ارشاد بھٹی کی


سچی بات تو یہ تھی کہ اس سارے عرصے میں سبھی سے گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہی مگر بھٹی صاحب سے کبھی نہیں مل سکا۔ ایک بار مجھے میرے استاد سید شبیر حسین صاحب جو کہ ایڈورٹائزنگ انڈسٹری میں آئیکون کا درجہ رکھتے ہیں، مجھ سے کہنے لگے یار پاشا ہم پرائم منسٹر سیکریٹریٹ میں کسی اشتہاری مہم کے کانٹریکٹ کے سلسلے میں گئے تھے تو وہاں آپ کے دوست ارشاد بھٹی صاحب ملے۔ انہوں نے فرمائش کی اگر آپ سلیم پاشا کو میرے پاس لے کرآئیں تو یہ کام میں آپ کے ادارے کو سونپ دوں گا۔ میں نے جواب دیا استاد جی! میں ضرور اسے ملوں گا لیکن اس وقت جب میری کتاب چھپ کر آ جائے گی، کوئی بہانہ تو ہو ملاقات کا۔ بہرحال بات آئی گئی ہوگئی۔

میری ارشاد بھٹی صاحب سے ملاقات کالمسٹ جاوید چوہدری کی کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران اسلام آباد کے میلوڈی ہوٹل میں ہوئی۔ میں اپنے دوستوں کے ہمراہ کھڑا گپیں لگا رہاتھا کہ ایک خوش پوش سوٹ ٹائی والا نفیس سا آدمی میری جانب بڑھا اور آتے ہی میرے ہاتھوں کو پکڑ کر چوم لیا۔ مجھے کہنے لگا پاشا جی مجھے پہچانئے۔ میرے منہ سے نکلا جی بھٹی صاحب کیسے مزاج ہیں؟ تو جواب میں بولے پاشا جی مجھ پہ آپ کا بہت احسان ہے۔ بھٹی کے الفاظ سن کر میری آنکھیں بھر آئیں اور کہا، یار کہاں کا احسان کیا بات کرتے ہو؟ آؤ بیٹھو سناؤ کیسے چل رہی ہے تمہاری افسری؟ بھٹی صاحب بولے، یہاں ایسی باتیں نہیں ہو سکتیں آپ کبھی وقت نکال کر میرے پاس آئیں۔ بیٹھ کر گئے زمانے کو یاد کریں گے۔ اتنا کہہ کر وہ اپنا کارڈ میرے ہاتھوں میں تھما کر ہجوم میں گم ہو گئے اور میں حیرت سے گم سم کھڑا رہ گیا۔

میری پنجابی شاعری کی پہلی کتاب چھپ کر آئی تو میں نے ارشاد بھٹی صاحب کو فون کرکے ملاقات کا عندیہ دیا۔ مجھے انہوں نے وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں ہی بلا لیا اور پھر ہم دیر تک اپنے بیتے ہوئے لمحوں کی یادوں کو گرم چائے کی پیالیوں کی چسکیوں میں محسوس کرکے ہنستے رہے۔ موجودہ کامیابیوں کو اپنی اُس پرانی جدوجہد سے عبارت کیا جو اوائل وقتوں میں ہم سب نے اکٹھے ہی شروع کی تھی۔ یوں یہ ملاقات خوب رہی اور دیر تک میں بھی اس کے نشے میں رہا۔

اسلام آباد میں رہتے ہوئے اس شہر سے، مارگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں سے عشق سا ہو چلا تھا۔ میرے آفس نے لاہور جانے کی ٹھان لی تو میں نے بادل نخواستہ اپنی آٹھ سالہ نوکری کو لات مار کر اپنا بوجھ اس کشتی سے اتار لیا۔ اسلام آباد کو ہی اپنا مسکن بنا نے کے واسطے یہاں چند مرلے کا پلاٹ لیا اور چھوٹی سی کٹیا بنا کر بال بچوں کو چھت مہیا کردی۔ اب مسئلہ جاب کا تھا، ایک دو ایڈورٹائزنگ کے اداروں میں انٹرویو ہوئے اسی اثنا میں ارشاد بھٹی صاحب سے بھی دوبارہ ملاقات ہوگئی جو کہ اپنی ایڈورٹائزنگ ایجنسی بنائے بیٹھے تھے۔ شوکت عزیز صاحب کے جاتے ہی ان کی نوکری بھی تمام ہوئی تو انہوں نے اشتہاری صنعت میں قدم رکھا۔ مجھے اپنا جگمگاتا ہوا دفتر دکھایا اور یہاں کام کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی تنخواہ کا فیصلہ خود کریں گے اور جو بھی کہیں گے مجھے منظور ہوگا۔ میں گومگو حالت میں تھا۔ ان کی دوستی اور اپنی غرض میں توازن نہیں کر سکتا تھا سو ایک پورا دن ان کے دفتر میں گذار کر میں نے ایک دوسری اشتہاری کمپنی کو جوائن کر لیا۔ بھٹی صاحب نے فون پر مجھے اچھا خاصا برا بھلا کہا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میرا دل اپنے اس فیصلے پر مطمئن تھا۔

ایڈورٹائزنگ کی دنیا سے نکل کر میں بھی سرکاری چھتری تلے آ ہی گیا اور مجھے وزارتِ تجارت کے ذیلی ادارے میں انچارج پبلی کیشنز کی جاب مل گئی۔ تین سال کے عرصے میں مجھے سرکار کے شاہی افسران کے مزاج اور اندازِکار کا بھر پور اندازہ ہوا۔ ادھر میرا ادبی سفر بھی جاری رہا، ہندوستان اور کینیڈا میں پنجابی سیمینار اور کانفرنسز میں شرکت نے میرے اندر کے لکھاری کو بہت حوصلہ دیا اور مجھے زندگی کے نئے تجربوں سے روشناس کیا۔ لیکن سرکاری افسران کے رویے اور سلوک نے میرا دل اس ماحول سے اچاٹ کر دیا۔ آخر کار میں نے اپنے دیس کو خیر آباد کہہ کر کینیڈا کو مستقل ٹھکانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ دوستوں کے ساتھ رابطہ کیا، میرے سفر کے لوازمات تیار ہو گئے۔

اسلام آباد کے دفتر میں آخری دن ڈیوٹی کر کے پیدل نکلا اور چلتا ہوا بس سٹاپ تک آیا۔ ایک بڑی سی لینڈ کروزر میرے پاس سے شوں کرتی گزری اور آگے جا کے رُک گئی، پھر ہولے ہولے ریورس میں چلتی ہوئی میرے پاس آ کے رکی۔ سائیڈ مرر میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی شخصیت کا چہرہ دکھائی دیا اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا مجھے ارشاد بھٹی کی آواز آئی، پاشا جی آؤ گاڑی میں بیٹھو اور اس کے ساتھ ہی دروازہ کھل گیا۔ میرے بیٹھتے ہی بھٹی نے سوال کیا، آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ میں نے کہا، ایک بس سٹاپ پر بندہ کیوں کھڑا ہوتا ہے؟ بھٹی نے کہا آپ کی بائیک کہاں ہے؟ کل ہی بیچی ہے، میں نے جواب دیا۔ کیوں پیسوں کی ضرورت تھی؟ ہاں یار یہی بات ہے۔ اگر ایسی بات تھی تو مجھے کیوں نہیں کہا تم نے، اس نے گلہ کرتے ہوئے پوچھا؟ مجھے ویسے بھی اب بائیک کی ضرورت نہیں تھی بھٹی صاحب اس لئے بیچا ہے۔ ضرورت کیوں نہیں، کیا مطلب؟ اس نے پوچھا۔ اصل میں میں یہ ملک چھوڑ کر کینیڈا جا رہا ہوں۔ ہائیں یہ کیا فیصلہ ہوا۔ اگر تم اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرو تو میں تمہیں نادرا میں اچھی پوسٹ پر لگوا سکتا ہوں، رحمان ملک سے میرے بہت اچھے مراسم ہیں۔ بھٹی نے ایک اور پیشکش کی۔ نہیں میرے یار اب فیصلہ ہو چکا، ویسے بھی میں ان تین برسوں میں اس بیوروکریسی کا مکروہ چہرہ اچھی طرح دیکھ چکا ہوں، مزید تاب نہیں ہے۔ اچھا یار جیسے تمہاری مرضی، تم نے پہلے کب میری بات مانی ہے، بتاؤ کہاں ڈراپ کروں؟

یہ ارشاد بھٹی صاحب سے میری اسلام آباد میں آخری ملاقات تھی۔ اب روزنامہ جنگ میں بھٹی صاحب کا کالم پڑھتے ہیں تو یادیں انگڑائی لیتی ہیں۔ بھٹی صاحب، آپ بہت جئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments