منصف کا عدل اور مے ڈے کال


منصف کے معیار عدل کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹ چکی اور حالت یہ ہے کہ ہانڈی سے برآمد ہونے والے توشے کی بدبو سے ہر کوئی دور بھاگ رہا ہے سوائے ان راتب خوروں کے جن کی حس شامہ مر گئی۔

گزشتہ کالموں پر نظر دوڑاؤں تو لاشعوری طور پر سیاسی موضوعات سے بچتا چلا آیا ہوں۔ کچھ ہفتوں سے تو لکھا ہی کچھ نہیں۔ برادر بزرگ وجاہت مسعود پوچھتے ہیں ”انقباض قلمی کی وجہ بتاؤ“۔ کہاآپ کو تو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دینے کا شوق نہ تھا۔ جو ہورہا ہے اس قدر عریاں اور بہیمانہ ہے کہ اندھے تک محسوس کر سکتے ہیں۔ پھر لکھیں کیا؟ بتائیں کس کو؟ سمجھائیں کس کو؟ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ یہاں گالیاں توکیا تھپڑ کھا کر بھی لوگ بے مزہ نہیں ہوتے اورجو لکیر کی اس طرف ہیں ان کے لب بھی سینے کو درزی تیار بیٹھا ہے۔

سقرا ط نے کہا تھا کہ مکالمہ جب عالموں کے ہاتھ سے نکل کر کم علموں کی دسترس میں چلا جائے تو معاشرہ تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے۔ مجھ ایسے کم علموں کی تو بات ہی چھوڑیں، پاک وطن میں قوم کی فکری رہنمائی کے دعوے دارروزانہ ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کے گریبان نوچتے ہیں۔

محترمہ مریم نواز شریف کی وہ پریس کانفرنس جس میں انہوں نے جج ارشد ملک کی ویڈیو صحافیوں کو دکھائی شروع ہوئے دو چار منٹ گزرے تھے۔ میں چودھری آصف کے دفتر سے اٹھ رہاتھا، پریس کانفرنس سے دلچسپی اس لئے نہ تھی کہ ساراد ن ایک ہی جیسی باتیں اور دو طرفہ سیاسی الزامات سن سن کر دماغ جمود کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اچانک مریم نواز نے جب یہ کہا کہ ”منصف بھی یہ کہہ رہا ہے کہ سزا دی نہیں گئی دلوائی گئی ہے“ تو میں اٹھتے اٹھتے دوبارہ صوفے پر جیسے ڈھے گیا۔

کمپیوٹر میں کھاتے بنانے میں مصروف چودھری آصف نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا کیا ہوا؟ میں نے کہا چودھری چائے اور منگوا؟ اس نے حیرت سے پہلے مجھے اور پھر ٹیلی ویژن سکرین کی طرف دیکھا، کچھ کچھ معاملے کو سمجھا۔ لڑکے سے بولا کڑک والی چائے لاؤ اور میرے ساتھ مل کر ٹی وی پر نظریں جما دیں۔

پاکستانی تاریخ میں ”جسٹس“ قیوم کا ریکارڈ توڑنے والے منصف کی پریس ریلیز دیکھیں یا بیان حلفی، یہ بے گناہی کی قسم سے زیادہ اپنے ہی خلاف فردجرم نظر آتی ہے۔

اب بھلا اس بات پر کون یقین کرے کہ سزایافتہ نواز شریف جو ہائیکورٹ سے طبی بنیادوں پر ضمانت لے کر باہرآیا تھا وہ آپ پر اس لئے دباؤ ڈال رہا تھا کہ تعاون کریں۔ تعاون! فیصلہ سنا دینے کے بعد کیسا تعاون؟ داتا کی نگری سے دیار حبیب تک آپ گھوم آئے۔ چلئے ملک میں تو مان لیا کہ آپ کو بندوق کی نوک پر کہیں بھی کوئی اٹھا کر لے گیا ہوگا لیکن ملک سے باہر بھی؟ یعنی کچھ بھی آپ کہیں گے اور دنیا مان لے گی؟ بقول آپ کے نہ تو دولت کی لالچ آپ کا ایمان کمزور کر سکی نہ ہی قتل کی دھمکی آپ کے اعصاب توڑ سکی لیکن اتنی سکت آپ میں نہ تھی کہ ایک فون کال یا برقی پیغام کی دوری پر بیٹھے نگران جج کو آپ یہ بتا سکتے کہ آپ پر کیا گزر رہی ہے۔

ایک یہی بات کافی ہے سمجھنے کو کہ آپ نے اس نظام انصاف کو مزید ننگا کردیا ہے جو کبھی پھانسی چڑھ جانے والوں کو باعزت بری کردیتا ہے اور کبھی بر سرعام یہ اعتراف کرتا ہے کہ جج اپنی دو ٹکے کی نوکری بچانے کے لئے ملک کے منتخب وزیراعظم کو بھی پھانسی چڑھا سکتے ہیں۔ اس بیان حلفی پر بہترین تبصرہ ممتاز قانون دان بابرستار ایک ٹی وی پروگرام میں کرچکے ہیں لیکن میں ان کا تبصرہ یہاں نقل کرکے ایک ”سینئر کالم نگار/تجزیہ کار“ کے عتاب کو دعوت نہیں دے سکتا۔

جج ارشد ملک کے بیان حلفی کو فرد جرم تسلیم کرنا یوں بھی ثابت ہوا کہ عدالت عالیہ نے اسے تسلیم کرنے سے عملی طور پر انکار کرتے ہوئے منصف کو اس کے منصب سے الگ کرنے کا واضح حکم سنایا ہے۔ اس صورت میں نواز شریف کو قید میں رکھنے کا جواز کیا ہے یہ کسی بھی اچھے وکیل سے پوچھا جا سکتا ہے۔ خاکسار کا خیال یہ ہے کہ نواز شریف کی رہائی اب کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔ یہ بات اب ثانوی حیثیت رکھتی ہے کہ مقدمہ دوبارہ چلے گا یا وہ بری ہوں گے۔ میاں طارق کو گرفتار کرنا یا ویڈیو بنا کر جج پر اثرا نداز ہونے کے مقدموں سے اس معاملے کو دبایا نہ جاسکے گا۔

ان لوگوں کی عظمت کو سلام جو مذکورہ ویڈیو منظر عام پرآنے کے بعد پوچھتے ہیں کہ ”جسٹس“ قیوم کے ساتھ آڈیو ٹیپ کس کی تھی؟ صاف سا جواب ہے میاں شہباز شریف کی۔ اس کے بعد جب ان سے پوچھا جائے کہ اس آڈیو ریکاڈنگ کے منظر عام پرآنے کا انجام کیاہوا تھاتو ہونقوں کی طرح بغلیں جھانکتے ہیں۔ شہباز شریف نے اگر کسی جج کے ساتھ انصاف کاسودا کیا تھا تو اس کی تحسین کی جاسکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ تاریخ ایسے خوشامدیوں کو کبھی عزت نہیں بخشتی۔

دستور پاکستان کے مطابق ملک کا عدالتی نظم اور حکومتی ڈھانچہ دو الگ چیزیں ہیں۔ منصف کی ویڈیو کی ساکھ کیا ہے اس کا حتمی عدالتی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ لیکن چھ جولائی کی شام سے تادم تحریر، یہ گھتی خاکسار نہیں سلجھا سکا کہ ہر دوسرا وزیر نیب عدالت کے جج کی شان میں رطب اللسان کیوں ہے؟ برسر اقتدارجماعت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ منصف کی وکالت اور مظلومیت کا رونا رونے کی مجبوری کیا ہے؟ سب سے بہتر موقف تو وزیراعظم کا ہے کہ عدالتی معاملہ ہے عدالت جانے اور اس کا کام، لیکن ان کی کابینہ کے اراکین اور پارٹی رہنماؤں کامسلسل عمل ان کے اس موقف سے مختلف کیوں ہے؟

جب سے یہ ویڈیو منظر عام پر آئی ہے اور مزید کچھ ویڈیوز کی نوید سنائی گئی ہے این آر اور اور ڈیل ڈیل کا راگ کچھ زیادہ ہی شور پکڑ گیا ہے۔ معروف کالم نگاربزرگوار منصور آفاق بھی کہتے ہیں کہ ڈیل ہو چکی لیکن جس ویڈیو پیغام میں وہ ڈیل کی خبر سناتے ہیں اس میں ”لگتا یہ ہے“ ”میراخیال ہے“ کا صیغہ استعما ل کرتے ہیں۔ بوجوہ میں اس سے متفق نہیں ہوں۔

پاکستان کی تاریخ متشرح ہے کہ ڈیل کا اختیار کبھی بھی دستور کے علم برداروں کے پاس نہیں رہا۔ صورت حال تھوڑی مختلف ہوتی ہے۔ ”مے ڈے کال“ کی پکار اس ملک میں تبھی سنائی دیتی ہے جب کوئی آمر لوٹوں کی خریدوفروخت اور سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ کے باوجود عوام میں جڑیں نہ ہونے کے سبب بند گلی میں پہنچ جاتا ہے۔ تب کوئی دستور کا علمبردار اٹھتا ہے اور اس ملک اور یہاں کے عوام کی خاطر سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے کسی کے ہاتھ کی دی ہوئی گانٹھیں اپنے دانتوں سے کھولتا ہے۔ لیکن تب تک بہت نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔

خواجہ محمد آصف نے سولہ جولائی کو قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کریہی چتاونی دی ہے۔ خواجہ محمد آصف نے کھل کر کہا ہے کہ ہم این آر او ہر گز نہیں مانگ رہے نہ ہی کسی ڈیل کے خواہش مند ہیں۔ ہمارے جو لوگ بھی جیل میں ہیں وہ جیل کاٹ لیں گے کسی اور کو پکڑیں گے تو وہ بھی جیل کاٹ لے گا۔ مشرف کی جیل بھی کاٹی تھی اب بھی کاٹ لیں گے، ہم لڑیں گے وقار کے ساتھ اور آخری وقت تک لڑیں گے لیکن تب تک اس ملک، اس نظام اور اس کے عوام کا بہت نقصان ہو چکا ہوگا۔ خواجہ آصف نے تاریخ کے پنے کھول کر سیاست کے نوآموز کھلاڑیوں کوتین دہائیوں پر مشتمل سیاسی تجربے کا نچوڑ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس ملک میں ایک مقدمہ چودھری ظہورالہی پر بھی ہوا تھاجس کے بعدپاکستانی سیاست ”بھینس چوری کا مقدمہ“ جیسی ضرب المثل سے آشنا ہوئی۔

آج بھی رانا ثنا اللہ پر ہونے والے مقدمے کو حقیقت ماننے پر کوئی تیار نہیں۔ کیا کمال مقدمہ ہے اس پر کہ خود ہی اکیس کلو ہیروئن شرافت سے پیش کردی۔ اس سے تو اچھا تھا اس پر چار بوتل ولایتی ڈال دیتے کوئی شک تو کرتا۔ راناثنا اللہ عدالت پیش ہوتا ہے تو ہنستا مسکراتا ہوا کہتا ہے نہ پروڈکشن آرڈر مانگوں گا نہ سہولتوں کی بھیک۔ یہ دن بھی آنے تھے! جس بندے کی سیاست کبھی پسند نہ آئی نہ جس کے کبھی معترف رہے آج وہ بھی دلیروں کی صف میں کھڑا لگ رہا ہے صرف اس لئے کہ خلق خدا کو اس مقدمے میں وہ مظلوم دکھائی دیتا ہے۔

تاریخ مگر یہ ہے کہ تاریخ سے جس کو سب سے زیادہ سبق سیکھنا چاہیے وہ سبق سیکھنے کی بجائے خود سبق بن جاتا ہے۔ کل کی بات ہے فرعون وقت کہا کرتا تھا بینظیر اور نواز شریف کی سیاست ختم۔ آج بینظیر اور نواز شریف دونوں کی اگلی نسل اس ملک کی سیاست کا استعارہ بن چکی۔ دوسری طرف طاقت کے خمار میں مست شاہراہ دستور پر مکے لہرانے والاآج اس ملک کی پاک مٹی کی مہک کو ترستا ہے لیکن یہاں آنے کی جرات تو کیا اونچی آواز میں سانس بھی نہیں لے سکتا۔ دیکھو اسے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).