انگریز راج کا پروپیگنڈا اور اصل حقیقت


جن لوگوں نے انگریزی پروپیگنڈا سے بھری تاریخِ ہند پڑھی ہے انہیں یہی لگتا ہے کہ انگریز ہندوستانی عوام کا نجات دہندہ تھا۔ کیونکہ یہاں کے حکمران عوام کو جاہل اور غریب رکھے ہوئے صرف عیاشیاں کر رہے تھے۔ ائے کاش کہ کوئی عقل اور حالات و واقعات سے سچ کشید کر سکے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندے جب انڈیا ائے تو انہوں نے ملکۂ برطانیہ کو یہاں کے بارے میں جو خط لکھا، اس میں انڈیا کو سونے کی چڑیا قرار دیا۔

وضاحت کی کہ یہاں نہ بھوک ہے نہ افلاس، حکیم اور وید بہترین ہیں اور مقامی جڑی بوٹیوں سے علاج میں ماھر ہیں ( اج ہربل، ایور وید یا حکیمی نسخے گورے کے پسندیدہ ہیں، جس نے ہمیں فارماسیوٹیکل اور کیمیکل پے لگایا ہوا ہے ) یہاں مختلف زبانوں اور مذاہب کے لوگ بستے ہیں لیکن ان کے درمیان کوئی نفاق اور منافرت نہیں۔

یہ اپنے ملک اور تہذیب سے محبت کرتے ہیں۔ شاعری، مصوری، ناٹک، فنِ تعمیر، دیگر علوم کی ہر چھوٹی بڑی ریاست اور صاحبِ ثروت خود ترویج اور سر پرستی کرتے ہیں۔ کاریگر نہایت ہنر مند ہیں، اس لئے ہماری مصنوعات کا یہاں بکنا کارِ محال ہو گا۔ اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ان کے درمیان پھوٹ اور نفرت پیدا کی جائے۔ ہمیں اس کے لئے ملکہ کی اجازت چاہیے تاکہ ہم مقامی ایجنٹ تعینات کر کے اس لائحۂ عمل پر کام کر سکیں۔

اور اجازت دی گئی۔ انگریز کو یہ کام مکمل کرنے میں ڈیڑھ سو سال لگ گئے۔ سترہویں صدی کے اوائل میں آئے تھے اور 1857 میں انڈیا پے مکمل برٹش راج قائم ہوا۔ 1947 تک سو سال کی برٹش حکومت میں ہندوستان نے طاعون، ملیریا اور ہیضے جیسی بدترین وبائیں دیکھیں۔ زرخیز بنگال اور آسام نے شدید قحط سالی جھیلی۔ دیگر علاقوں میں بھی شدید غذائی قلت پیش آئی۔ مقامی کاریگروں اور کسان کو لگان نے مارا اور خاص کر سوتی اور ریشمی کپڑا بنانے والے جولاہوں کے انگوٹھے کٹوا دیے گئے تاکہ انگریزی مال بک سکے۔

انگریز نے دو عظیم جنگیں لڑیں جس کا ایندھن ہندوستان بنا۔ مذہبی تفریق بھی اسی دور کی ایجاد ہے۔ Divide & rule policy نے جو بیج بویا تھا جو اج تک زہر بن کے رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ ہندوستانی سونا، پٹ سن، چائے، کافی، گندم، چاول اور دیگر اناج، کپاس، خام مال، نمک اور کوئلہ ہی تھا جس نے برطانوی سامراج کو طاقت اور دوام بخشا۔ ہاں۔ جس وقت انگریز اپنے ملک میں یونیورسٹی اور اسپتال بنا رہا تھا، ہندوستان اس وقت جہل کے اندھیروں میں غرق نہ تھا۔ ( عمومی تاثر یہی ہے )

یہاں ہر محلے میں مدرسے اور پاٹھ شالائیں تھیں، قصبوں میں اساتذہ کے دالان شاگردوں سے بھرے رہا کرتے تھے۔ جو ان کی کسی بھی یونیورسٹی سے بہتر تھے۔ ریاضی، طبیعیات، علمِ طب، فلکیات، کیمیا، فنون سب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس تعلیمی نظام کو بند کرنا انگریز کی اولین ترجیح تھی۔ کیونکر ایک جرس زمین مانگنے والوں نے اس ہزار ہا سال کی تہذیب کے پروردہ خطے سے جرعِ حیات ہی چھین لیا، یہ جاننے کے لئے محض 1900 سے 1947 تک کی تاریخ نہ پڑھیں۔ بلکہ چندر گپت موریہ سے بہادر شاہ ظفر تک کا دور تاریخ سے کھنگالیں اور اگر مطالعہ پاکستان میں پڑھائی جانے والی داستانِ فتح دیبل اپ کو للکارے تو سر جھٹک کے آگے بڑھ جائیں۔ تب شاید بہادر شاہ ظفر اور واجد علی شاہ کی بے کسی اور دکھ کا اندازہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).