کیا ریاست زندہ ہے؟


پہلا واقعہ : کلی عمر کوئٹہ کا رہائشی عبدالخالق محکمہ زراعت بلوچستان میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ یہ اچانک جولائی کے پہلے ہفتے اپنے دفترسے لاپتہ ہوگئے اور سات جولائی کو ایک ویرانے سے ان کی لاش ملی۔ پولیس کی طویل تحقیق کے بعد عبدالخالق کے قاتل کاسراغ لگا کر اسے گرفتار کیاگیا جس کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ کلی عمر کی مسجد کا پیش امام ہیں۔ قاتل کے اعترافی بیان کے مطابق، اس نے مقتول کو سونے کی اینٹوں کی تصاویر دکھاکر یہ کہا تھاکہ قیمتی اینٹوں کا یہ خزانہ کوئٹہ کے کسی قبرستان میں ہے جس کومل کرنکالتے ہیں۔

قاتل کے بیان کے مطابق یہ لالچ دے کر انہوں نے پہلے ڈپٹی ڈائریکٹرعبدالخالق (مقتول) سے پندرہ لاکھ روپے بٹورلیے۔ کافی عرصہ گزرنے کے بعدجب مقتول نے اپنی رقم واپس مانگنے کا مطالبہ کیا تو اس کے قتل کا منصوبہ بنالیا۔ قاتل کامزید کہناتھاکہ سات جولائی کو خزانہ دکھانے کی غرض سے وہ اسے کلی کوتوال کے قبرستان لے گئے اور وہاں پر خنجرکے وار کرکے اسے قتل کیا اورراہ فرار اختیار کرلیا۔

دوسرا واقعہ: ناحق قتل کا یہ واقعہ بھی کوئٹہ ہی کے علاقے مغربی بائی پاس پر جولائی کے پہلے مہینے میں پیش آیا۔ مقتول رحمت خان مندوخیل نامی ڈرائیور کاتعلق ضلع ژوب کے علاقے گستوئی سے تھا، جوکوئٹہ میں عرصہ دراز سے ایک کمپنی کے ساتھ ڈرائیونگ کرتا تھا۔ رحمت خان جولائی کے ابتدائی دنوں میں اپنے قیام گاہ سے لاپتہ ہوئے اور سات جولائی کو

ان کی لاش مسخ شدہ اوربوری بندحالت میں ملی جسے انتہائی بے رحم طریقے سے قتل کیا گیا تھا۔

تیسرا واقعہ : قتل کا یہ واقعہ چودہ جولائی کو ژوب شہر کے مرکزی علاقے میں مسجد خواجہ ضیل کے سامنے پیش آیا۔ مقتول اٹھارہ سال کا ایک مفلوک الحال سبزی فروش تھا جبکہ قاتل دبئی سے آیا ہوا ایک سرمایہ دار کاروباری بندہ تھا۔ عینی شاہدوں کے مطابق مقتول سبزی فروش کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ریڑھی سے چندکلوگرام ٹماٹر خریدنے والے مذکورہ گاہک کی ناجائز زیادتی کوپکڑلیاتھا، جس پر گاہک طیش میں آکر اپنے بیٹوں سمیت سبزی فروش پراس بے رحمی کے ساتھ ٹوٹ پڑے کہ پل بھر میں ان کی زندگی کاخاتمہ کردیا۔

چوتھا واقعہ : قتل کا یہ واقعہ بھی حالیہ دنوں میں ژوب ہی میں رونما ہوا۔ مقتول کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے بتایاجاتاہے جبکہ اس کے ساتھ ایک اور مسیحی نوجوان بھی بری طرح زخمی ہواتھا۔

قتل ِ ناحق کے یہ چاروں واقعات تقریباً تین ہفتوں کے اندراندر اس ملک کے سب سے کم آبادی والے صوبے کے دو شہروں میں پیش آئے۔ اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ اس طرح کے دلخراش واقعات کی شرح اس ملک کے کراچی، لاہور، فیصل آباد اور پشاور جیسے گنجان آبادی شہروں میں اس سے دس گنا بلندہوگی۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو قتل جیسے ناقابل معافی جرم کے سدباب کی بجائے سرکارِ وقت کی طرف سے مقتول کے ورثا کو ہروقت فقط یہ تسلی دی جاتی ہے کہ ”فلاں مقتول کے قتل کا معمہ حل ہوگیا، قاتلوں کاسراغ لگانے کے بعداس کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے، “۔

بعد میں جب پتہ چلتا ہے تو قاتل یا تو بھاری رقم کی ادائیگی کے عوض تھانے ہی سے رہا ہوچکے ہوتے ہیں یا پھر مقتول کے لواحقین کو طمع اور لالچ یا دھونس دھمکیوں کے ذریعے قاتلوں کی رہائی پررضامندکیاجاتاہے۔ بائیس کروڑ آبادی کے اس ملک میں روزانہ ایسے درجنوں کیسز سامنے آتے ہیں لیکن قاتل کو عبرتناک سزا ملنا محض ایک خواب نظر آتا ہے۔ رواں سال جنوری کوقصور سے لاپتہ ہونے والی ننھی زینب کے قاتل کو بے شک سزائے موت دی گئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پورے ملک میں صرف زینب کے قاتل کو موت کی سزا دینے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے یا اس قتل عام کا سدباب کرنے کے لئے ایک جامع پلان اور سنجیدہ بنیادوں پر منصوبہ بندی کرناریاست کا فریضہ ہے؟

کیا مظلوم اور بے گناہ صرف اس مقتول کو سمجھا جائے گا جن کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوں، جس کے قتل کی خبراخبارات میں شہ سرخی بنے اور بعدمیں سپریم کورٹ کی جانب سے اس کا ازخود نوٹس لیاجائے یا ہر جھلی اور خفی قتل ظلم ہوتا ہے اور اس میں ملوث افراد کو سزا دینا ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے؟ اپنی تحریروں میں پہلے بھی کہہ چکاہوں اور مکرر عرض ہے کہ قتل ناحق (خواہ مقتول کاتعلق کسی بھی مذہب اور فرقے سے ہو) جیسے عظیم جرم کاراستہ روکنے کا واحد حل ایک ہی ہے کہ قاتل کو فی الفورقصاص کردینا چاہیے تاکہ معاشرے میں زندگی کوپنپنے کا موقع مل سکے۔

اسی لئے تو باری تعالی کی حکیم ذات نے اس ناسور کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا یہی ایک نسخہ تجویز فرمایا ہے کہ ”ولکم فی القصاص حیا یا اولی الابصارلعلکم تتقون، البقرہ 971۔ ترجمہ“ اور اے عقل والوتمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم (خونریزی ) سے بچو ”۔ کیا اس ریاست کے ارباب حل وعقد اور اس کے چلانے والوں میں کچھ صاحب عقل بندے موجود ہیں کہ اپنی رعیت کے تحفظ کو یقینی بنائیں؟ کیا اسلام کے مقدس نام پر معرض وجود میں آنے والے اس ذی الحواس بندے موجود ہیں جو روز پیش آنے والے اس بھیانک جرم کی سرکوبی کے لئے حرکت میں آجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).