ذہنی امراض اور خودکشیاں: پاکستانی نوجوان اپنی جانیں کیوں لے رہے ہیں؟


عماد نقوی

پاکستان میں خودکشی کے بارے میں سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اعدادوشمار موجود نہیں ہیں

‘ہمارے بیٹے کی موت پر ہمیں کہا گیا کہ اگر آپ سچ بتا دیں گے تو مولوی جنازہ نہیں پڑھائے گا۔ میرے شوہر نے جواب دیا کہ کہاں لکھا ہے کہ مولوی کو جنازہ پڑھانا ہے، میں اپنے بیٹے کا جنازہ خود پڑھا لوں گا-‘

24 سالہ عماد نقوی، عطیہ اور اظفر نقوی کی پہلی اولاد تھے اور گذشتہ برس مئی میں عماد نے خود اپنی جان لے لی تھی۔

عطیہ نقوی کا کہنا ہے کہ ‘ہمیں لوگوں نے بہت سمجھایا کہ مت کہو خودکشی تھی، کہہ دو کہ ایکسیڈنٹ ہو گیا یا دل کا دورہ پڑ گیا لیکن میں نے اور میرے شوہر نے فیصلہ کیا کہ ہم جھوٹ نہیں بولیں گے۔’

عطیہ نقوی کے لیے، جو پیشے کے لحاظ سے ماہرِ نفسیات ہیں، یہ فیصلہ کچھ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔

‘بطور ماہرِ نفسیات ایک طرح سے میں اپنے پیر پر کلہاڑی مار رہی تھی کہ جب میرا اپنا بیٹا اس ذہنی کشمکش سے گزر رہا تھا تو میں کیا کر رہی تھی لیکن پھر میں نے سوچا کہ اگر ہم خودکشی کے موضوع پر بات ہی نہیں کریں گے تو اس مسئلے کا حل کیسے نکلے گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

ڈپریشن اور خودکشی پر بات کیوں نہیں ہوتی؟

ہر 40 سیکنڈ میں ایک مرد خودکشی کرتا ہے۔۔۔

کینیڈا کی نوجوان لڑکیوں میں خود کشی کا بڑھتا رجحان

افغان خواتین خودکشی کیوں کر رہی ہیں؟

لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟

پاکستان میں خودکشی کے بارے میں سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اعدادوشمار موجود نہیں ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ 15 سے 35 افراد خودکشی کرتے ہیں یعنی تقریباً ہر گھنٹے ایک شخص اپنی جان لے رہا ہے۔

عالمی ادارہِ صحت کے سنہ 2012 میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق اُس سال تقریباً 13 ہزار پاکستانیوں نے خودکشی کی جبکہ 2016 میں یہ تعداد پانچ ہزار کے قریب رہی۔ ڈبلیو ایچ او کی 2014 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشی کر کے اپنی جان لیتے ہیں۔

ماہرِ نفسیات عطیہ نقوی بتاتی ہیں کہ خودکشی کے بے شمارعوامل ہو سکتے ہیں۔ ’یہ ایک ایسا فعل ہے جس کے بارے میں ہم میں سے اکثر لوگ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر سوچتے ضرور ہیں لیکن پھر کچھ ایسی مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو ہمیں زندگی کی طرف واپس کھینچ لاتی ہیں۔‘

کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہرِ نفسیات عمران ظفر کا کہنا ہے کہ خودکشی کا تعلق ذہنی دباؤ یا ڈپریشن سے ہے اور ڈپریشن کی ایک بڑی علامت خودکشی کے خیالات کا آنا ہے۔

’خودکشی یا خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد میں اکثر خوداعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنی شخصیت کے بارے میں احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہم لوگوں کو سراہتے نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو نمایاں کرتے ہیں۔‘

عطیہ نقوی بتاتی ہیں کہ ذہنی دباؤ یا ڈپریشن نوجوانوں میں بھی خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ’ڈپریشن کی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک تو وہ جس کے بارے میں لوگ عام طور پر جانتے ہیں یعنی کہ کسی حادثے یا سالہا سال مایوسی کی زندگی گزارنے کے بعد جب مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا اور زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے تو انسان اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔

‘دوسری قسم فنکشنگ ڈپریشن ہے جو میرے بیٹے کو تھی۔ وہ ایک ہنستا مُسکراتا، خوش باش بچہ تھا اور کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ اس کو کوئی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔ اپنی خودکشی سے چند گھنٹے پہلے تک اُس نے دوستوں اور گھر والوں سے فون پر بات کی اور کسی قسم کا شائبہ تک نہیں ہونے دیا۔‘

عطیہ نقوی کہتی ہیں کہ جو لوگ خودکشی کر گزرتے یا کم از کم اس کی کوشش کرتے ہیں ان میں بھی دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو واقعی اپنی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو اپنے اردگرد لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایسا قدم اُٹھاتے ہیں کیونکہ بقول اُن کے کوئی بھی شخص ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا۔‘

کیسے معلوم ہو کہ کوئی خودکشی کرنے والا ہے؟

ماہرین کے مطابق کسی بھی شخص میں خودکشی کے رجحان کی ابتدائی علامات زندگی کے بارے میں اُس کے رویے میں تبدیلی کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ ایسا شخص یا تو ضرورت سے زیادہ پُرجوش نظٌر آنے لگتا ہے یا پھر خطرناک حد تک مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔

عماد کا سامان

عطیہ نقوی کے مطابق ان کا بیٹا فنکشنگ ڈپریشن کا شکار تھا

عطیہ نقوی کا کہنا ہے کہ ’آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایسا شخص اپنی زندگی کی بہت سی چیزوں کو سمیٹتا اور کاموں کو نمٹاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔‘

ان کے مطابق ایسے شخص سے گفتگو کے دوران خودکشی کے رجحانات کو پہچاننے کا کافی موقع ہوتا ہے۔ ’یہ سب کہنے کے باوجود میرے اپنے بیٹے نے جس سے میں نے چند گھنٹے پہلے بات کی تھی، کسی قسم کا کوئی وارننگ سائن نہیں دیا- تو اگر کوئی شخص چھُپانا چاہے تو وہ ایسا بھی کر سکتا ہے۔‘

ماہرینِ نفسیات کے مطابق اگر کسی شخص میں خودکشی کی انتباہی علامات موجود ہیں اور وہ کہہ رہا ہے کہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے یا اُسے اپنی زندگی کا فائدہ نظر نہیں آتا تو اِن باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

عطیہ نقوی کا کہنا ہے کہ ’کئی دفعہ ہم ایسی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ ہم کہہ دیتے ہیں کہ کچھ بھی تو نہیں ہے، زندگی کی مثبت تصویر دیکھو، فلاں چیز پر شکر کرو۔ دراصل ہم اپنی نظر سے اُس شخص کی دنیا کو دیکھ رہے ہوتے ہیں حالانکہ ہمدردی کا فلسفہ یہ ہے کہ متاثرہ شخص کی دنیا کو اُس کی نظر سے دیکھا جائے۔ فقیر کو خیرات دے کر آگے بڑھ جانا بہت آسان ہے لیکن اصل نیکی اُس کے ساتھ بیٹھ کر روٹی کھانا ہے۔‘

خودکشیوں کو کیسے روکا جائے؟

گذشتہ 20 برسوں کے دوران پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی امراض میں اضافہ ہوا ہے تاہم ماہرِ نفسیات عمران ظفر کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اب بھی ذہنی بیماری کو بیماری تصور نہیں کیا جاتا۔

‘جسم کے دیگر حصوں کی طرح دماغ بھی ایک عضو ہے جس سے متعلق کسی بھی مرض کی تشخیص اور علاج ضروری ہے۔ اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ دماغی بیماریاں خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہیں۔‘

عمران ظفر کے بقول ہمارے معاشرے میں ذہنی بیماریوں کے بارے میں بات کرنا اب بھی معیوب سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کر پاتے۔ ’اگر ڈّپریشن کی ابتدا میں ہی تشخیص ہو جائے اور علاج کرا لیا جائے تو بات خودکشی تک پہنچے ہی نہیں- اِس طرح خودکشیوں کی روک تھام میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے‘۔

علاج کیا ہے؟

ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں ذہنی امراض کے علاج کے لیے ذرائع محدود ہیں-

عمران ظفر کہتے ہیں کہ ‘ذہنی صحت کے بارے میں حکومت کی کوئی جامع اور واضح پالیسی نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر ذہنی بیماریوں کے علاج کے لیے فنڈز اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، پرائیوٹ سیکٹر بھی اس شعبے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا کیونکہ دیگر بیماریوں کے مقابلے میں دماغی امراض کے علاج میں آمدنی کے زیادہ مواقع نہیں ہیں۔‘

عطیہ نقوی عماد کی تصاویر کے ساتھ

عطیہ نقوی کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ جو شخص ذہنی کشمکش سے گزر رہا ہے اُسے یقین ہو کہ اگر اس نے اپنی مدد کرنے کی کوشش کی تو مدد ضرور ملے گی

ماہرِ نفسیات عطیہ نقوی عمران ظفر کی رائے سے متفق تو ہیں لیکن صورتِ حال سے ناامید بھی نہیں۔ ’یہ درست ہے کہ ہمارے یہاں خودکشی سے متعلق ہاٹ لائنز یا دیگر وسائل دستیاب نہیں ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ بالکل بھی مدد نہیں ہے۔ دیہات اور چھوٹے شہروں میں سوشل ورکرز موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار نئے ماہرینِ نفسیات پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر کے اس شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ‘جو چیز ہمیں دوسرے معاشروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہمارا سماجی نظام ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں گھر کا کوئی نا کوئی فرد ایسا ضرور ہوگا جو آپ کی بات سنے گا اور اس کا حل نکالنے کی کوشش کرے گا۔‘

عمران ظفر بتاتے ہیں کہ ‘سوسائڈ واچ’ بھی خودکشی کی روک تھام کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ ’اگر مریض میں خودکشی کی علامات نظر آئیں تو گھر کے افراد اور دوست احباب نگرانی کا نظام تشکیل دیتے ہیں تاکہ ایسے شخص کو تنہا نا چھوڑا جائے اور ہر وقت نظر رکھی جائے۔ اس نظام کے ذریعے یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص کے پاس ایسے وسائل یا سازوسامان موجود نا ہوں جن کے ذریعے خودکشی کی کوشش کی جا سکے۔‘

ماہرِین کے مطابق ذہنی صحت کا معاملہ دوسرے امراض سے اس لیے مختلف ہے کیونکہ اس مرض میں جب تک مریض کی رضامندی شامل نا ہو علاج کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔

عطیہ نقوی کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ جو شخص ذہنی کشمکش سے گزر رہا ہے اُسے یقین ہو کہ اگر اس نے اپنی مدد کرنے کی کوشش کی تو مدد ضرور ملے گی۔

’اصل تبدیلی مریض کے اندر سے ہی آئے گی اور اگر وہ علاج کروانا چاہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی مدد کرنا چاہ رہا ہے۔‘

خاموشی حل نہیں!

عطیہ کا کہنا ہے کہ ‘عماد کے دنیا سے چلے جانے کے بعد میرے پاس دو راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ میں خاموش رہوں اور اپنے بیٹے کے غم میں روتی رہوں۔ یہ ایک فطری ردِعمل تو تھا لیکن اس سے نہ تو میرے باقی دو بچوں کو کوئی فائدہ پہنچتا اور نہ ہی میں عماد کا حق ادا کر سکتی۔ اس لیے میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا-‘

وہ بتاتی ہیں کہ سب سے پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ اپنے بیٹے کی موت کے بارے میں سچ بولنا شروع کیا کہ اُس نے خودکشی کے ذریعے اپنی جان لی تھی۔

عطیہ نقوی

عطیہ کے مطابق انھوں نے اپنے بیٹے کی خودکشی کو کبھی نہیں چھپایا

’دوسری بات یہ کہ ہم عزت اور احترام سے عماد کا نام لیتے ہیں۔ ہم اُس کی اُس زندگی کو یاد کرتے ہیں جو اُس نے اپنی موت سے 24 سال پہلے تک گزاری تھی۔ اِس سب کے پیچھے میری نیت یہ تھی کہ عماد کی طرح کے دوسرے بچوں کی مدد کی جا سکے۔ اس طرح اگر میں ایک زندگی بھی بچانے میں کامیاب ہو گئی تو میں سمجھوں گی کہ میں نے اپنے بیٹے کا حق ادا کر دیا۔‘

عطیہ نقوی نے ایسی ماؤں کا مددگار گروپ تشکیل دیا ہے جن کے بچوں نے خودکشی کی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ‘ان میں سے کئی بچوں کی خودکشی کے بارے میں لوگوں کو نہیں بتایا گیا تھا۔ یہ گروپ میرے گھر پر ملتا ہے، میں اُن ماؤں کو سمجھاتی ہوں کہ کم از کم یہاں تو کھل کر بات کریں کہ آپ کے بیٹے یا بیٹی نے خودکشی کی تھی اِس طرح اُن کے دل کی بھڑاس نکلتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میرا اپنا دل بہت مطمئن ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے بیٹے نے کیسی شاندار زندگی گزاری۔ میں عماد کا سوگ منانے کے بجائے شکر ادا کرتی ہوں کہ اللہ نے مجھے عماد جیسا نیک اور صالح بیٹا عطا کیا۔ میرا سر ہمیشہ فخر سے بلند رہے گا کہ میں عماد کی ماں ہوں۔‘

عطیہ بتاتی ہیں کہ وہ ماؤں کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے اِس عمل پر شرمندہ نہ ہوں بلکہ اُن کے دکھ اور ان کے غم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

‘لوگ کیا کہیں گے’

عطیہ نقوی کے مطابق موت ہر رشتے پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے خاص طور پر خودکشی کی موت۔

’ہر رشتہ اِس کو ذاتی طور پر لیتا ہے کہ مرنے والے نے مجھے کیوں نہیں بتایا، اپنے دل کی بات مجھ سے کیوں نہیں کی؟ ماں باپ غم میں چلے جاتے ہیں جبکہ بہن بھائیوں میں غصہ آجاتا ہے کہ جانے والے نے تو اپنی مرضی کر لی اور اُن کے گھر کا ماحول ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔‘

عطیہ کہتی ہیں کہ خودکشی کے بارے معاشرتی رویہ بھی انتہائی متعاصبانہ ہے۔

‘لوگ کھوج میں پڑ جاتے ہیں کہ آخر فلاں نے خودکشی کیوں کی۔ اس طرح خودکشی کرنے والے کا خاندان اپنا غم بھول کر اپنے پیارے کی عزت بچانے میں لگ جاتا ہے۔ اگر کوئی معقول وجہ مل جائے تو پھر لوگوں کو سکون آجاتا ہے ورنہ وہ ایسے ہو جاتے ہیں جیسے بلبلا رہے ہوں۔‘

عطیہ بتاتی ہیں کہ اِس رویے کا نفسیاتی پہلو یہ ہے کہ اگر لوگوں کو خودکشی کی کوئی ٹھوس وجہ سمجھ نہ آسکے تو اُنھیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر یہ حادثہ کسی عام ہنستے بستے خاندان کے ساتھ پیش آسکتا ہے تو پھر اُن کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

عطیہ چاہتی ہیں کہ پاکستانی معاشرہ خودکشی سے متعلق اپنے رویے پر نظر ثانی کرے۔

وہ کہتی ہیں کہ خودکشی کے رجحانات رکھنے والے یا یہ انتہائی قدم اُٹھانے والے لوگ ہمدردی کے مستحق ہیں۔ اُن کے مطابق کوئی بھی شخص اُن آخری لمحات میں اپنے پیاروں کو دکھ نہیں دینا جاہتا لیکن خودکشی کرنے والے کی ذہنی کیفیت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے عمل کے مضمرات کا درست اندازہ لگا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32465 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp