کون ہے یہ سنجرانی؟


حکومت اور اپوزیشن کے مابین ہر گزرتے دن کے ساتھ کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ، معاشی میدان سے سیاسی محاذ تک ملک کو درپیش چیلنجز کے باوجود حکومت اپنے رویے میں لچک کے لیے تیار ہے اور نہ ہی اسے عدم استحکام کے نتائج کی پروا ہے کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کے رہنما ملک کی موجودہ مشکلات کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو گردانتے ہیں۔

حکومت کا بیانیہ ہے کہ اپوزیشن رہنما بالخصوص شریف اور زرداری خاندان کی کرپشن نے پاکستان کو اس نہج پہ پہنچایا ہے اس لیے کسی بھی قیمت پہ ان کا احتساب منطقی انجام تک پہنچانا ہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ ان کی قیادت کو احتساب کے نام پہ بدترین انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔حکومت نے جہاں اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے ذریعے اپوزیشن رہنماؤں کی مبینہ کرپشن کی کہانیاں عوام کو سنانا شروع کر دی ہیں وہیں اپوزیشن جماعتوں نے ملک بھر میں حکومت مخالف جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے آخری لڑائی کے لیے عوام کو متحرک کرنا شروع کر دیا ہے۔

مقابلے کا پہلا راؤنڈ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں شروع ہونے جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی اور اس کے بعد رہبر کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی گئی لیکن چیئرمین سینیٹ نے مستعفی ہونے کی بجائے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی چیئرمین سینیٹ سے ملاقات میں انہیں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کی بھرپور حمایت کی یقین دہانی کرا دی۔

ادھر حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کراتے ہوئے وزارت پارلیمانی امور کو سینیٹ اجلاس طلب کرنے کی کارروائی مکمل کرنے کی سمری بھیج دی ہے۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پہ اقتدار کے ایوانوں میں کیا کھیل جاری ہے اس کی تفصیلات سے پہلے اگر گزشتہ سال چیئرمین سینیٹ کے انتخابات اور صادق سنجرانی کے آصف علی زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹوں کے ذریعے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کی حالیہ تاریخ پہ نظر ڈالی جائے تو مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا وہ بیان یاد آتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کون ہے یہ سنجرانی؟

چھ لوگوں کے گروپ نے اسے نامزد کیا اور وہ آتے ہی چیئرمین سینیٹ بن گیا، ان کے پیچھے جولوگ ہیں وہ سب کو پتہ ہے۔ نواز شریف نے صادق سنجرانی کے تعارف بارے استفسار کر کے یقیناً اس بساط بارے رد عمل ظاہر کیا تھا جسے بچھا کر صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوایا گیا ورنہ صادق سنجرانی نواز شریف کے ساتھ بطور کوآرڈی نیٹر اور ان کے نامزد وزیر اعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری کے ساتھ معاون خصوصی کے طور پہ کام کر چکے تھے۔

صادق سنجرانی نے نواز شریف کےاس تحقیر آمیز جملے کا براہ راست تو جواب نہیں دیا لیکن اپنے قریبی رفقاکے سامنے اس تاسف کا اظہار ضرور کیا تھا کہ انہیں نواز شریف کے ان الفاظ نے بہت تکلیف پہنچائی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اور کچھ نہیں تو نواز شریف وہ وقت ہی یاد کر لیتے کہ جب پرویز مشرف کی آمریت میں ان کی اہلیہ مرحومہ کلثوم نواز ان کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں تو بلوچستان میں یہ سنجرانی ہی تھے جنہوں نے نہ صرف محترمہ کلثوم نواز کو اپنے گھر میں ٹھہرایا تھا بلکہ دالبدین میں ان کا جلسہ منعقد کر کے پرویز مشرف کے غضب کو دعوت دی تھی۔

جس کی پاداش میں سنجرانی خاندان کو پرویز مشرف کی طرف سے دیگر کارروائیوں کےساتھ ان کی ستر دکانوں پہ بلڈوزر پھیرے جانے سے شدید مالی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ بطور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی کارکردگی کا اعتراف تو اپوزیشن ارکان بھی کرتے ہیں ۔ ایوان کو غیر جانب داری سے چلانے کا اعزاز ہی ہے کہ مشاہد اللہ خان جیسے اپوزیشن کے رہنما بھی ان کے لیے اپنے دل میں انتہائی عزت و احترام کا جذبہ رکھتے ہیں۔

یہ بھی صادق سنجرانی ہی ہیں جنہوں نے بطور چیئرمین سینیٹ اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے نامناسب رویے پہ ان کی طرف سے معافی نہ مانگنے پہ ان کے باقی ماندہ اجلاس میں شرکت پہ پابندی کی رولنگ دیتے ہوئے حکومت کی ناراضی کی بھی پروا نہیں کی تھی۔ بطور چیئرمین سینیٹ حکومت کی طرف سے سینیٹ اجلاس طلب کرنے کے بعد آرڈیننس جاری کرنے اور اسے جلد ایوان میں پیش نہ کرنے ، ججز کے فیصلوں کو مناسب الفاظ میں زیر بحث لانے اور اپوزیشن سینیٹر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے متعلق غیر معمولی رولنگز بھی ان کے کریڈٹ پہ ہیں۔

جہاں تک معاملہ ہے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا تو اپوزیشن کی عددی اکثریت کی خوش فہمی اپنی جگہ لیکن ہنوز دلی دور است کیونکہ میری معلومات کے مطابق جنہوں نے صادق سنجرانی کو چیئرمین بنایا تھا وہ انہیں برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اس ضمن میں جوحکمت عملی سامنے لائی جا رہی ہے اس میں پہلے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پہ کارروائی ہوگی اور اس سے پہلے وہ تمام بندوبست کیا جا رہا ہے جس میں اپوزیشن سینیٹرز سے مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔

یہ تجویز بھی زیر غورہے کہ تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ہی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ان کے خلاف زیر تفتیش مقدمات میں گرفتار کر لیا جائے۔ سینیٹ کے قواعد و ضوابط حکومت کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ایک اجلاس کے بعد ایک سو بیس دن تک اجلاس طلب نہ کرے چنانچہ اس آپشن کو استعمال کرتے ہوئے اس عرصے کے دوران چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے ہر وہ حربہ اختیار کیا جائے گا جو جنگ کی طرح سیاست میں بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔

اقتدار کی غلام گردشوں میں تو یہ کھسر پھسر بھی ہو رہی ہے کہ جے یو آئی ف کی قیادت کے خلاف انکوائری کے آغاز اور نیب کے زیر حراست سابق صدر کی طرف سے بات چیت کرنے کے لیے بھیجے جانے والے پیغامات اپوزیشن کی طرف سے صادق سنجرانی کو ہٹائے جانے کی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے خوش آئند نہیں ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پہلے راؤنڈ کا نتیجہ جہاں اس سوال کا جواب دے گا کہ کون ہے یہ سنجرانی،وہیں اپوزیشن کو اپنی صفوں میں جھانکنے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).