’’علموں بس کریں او یار‘‘


بخدا عالمی عدالت انصاف سے کلبھوشن یادو کے بارے میں وہی فیصلہ آیا ہے جس کی مجھے کئی مہینوں سے توقع تھی۔ بدھ کے روز آئے فیصلے کو مگر پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اپنے اپنے مؤقف کی فتح ٹھہرا رہی ہیں۔ ٹویٹر پر لیکن چند افراد ہیں جو ان کی خوشی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ یہ سوالات اٹھانے والوں کو دونوں ممالک کے محبانِ وطن نے للکارنا شروع کردیا۔ ربّ کا صد شکرکہ میرے ٹویٹر دیکھنے تک نوبت گالم گلوچ تک نہیں پہنچی تھی۔ عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے آئے فیصلے سے محض اپنی پسند کے چند اقتباسات کے حوالے دئیے جارہے تھے۔

میں پاکستانی ہوں۔ اپنے وطن سے محبت ثابت کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ محبت آپ کی جبلت کا حصہ ہوتی ہے۔ ہمیشہ مگر کوشش یہ رہی کہ ’’حساس‘‘ ترین معاملات کو بھی صحافتی منطق کے اطلاق سے زیر بحث لانے کی کوشش ہو۔ ٹھنڈے دل سے اس منطق کا کلبھوشن کے معاملہ پر اطلاق کریں تو بنیادی بات یہ اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ وہ پاکستان میں گرفتارہوا۔ میرے جیسے کسی پاکستانی صحافی نے نہیں بلکہ ایک بھارتی جریدے نے رپورٹروں کی ایک ٹیم کی معاونت سے یہ خبردی تھی کہ کلبھوشن کو ’’مبارک‘‘ کے نام سے بھارتی حکومت نے ایک پاسپورٹ جاری کیا تھا۔اس کے گھر کا سراغ بھی لگالیا تھا۔

بارہا اس کالم میں اس خبر کا حوالہ دیتے ہوئے یاد دلاتا رہا کہ بھارتی صحافیوں کی دی گئی معلومات کے مطابق کلبھوشن کو ایک فرضی نام سے اضافی پاسپورٹ کا اجراء اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ اسے بھارتی حکومت نے کسی جاسوسی مشن پر مامور کیا تھا۔ بھارتی حکومت نے ٹھوس شواہد کی فراہمی کے ساتھ صحافیوں کے اس حوالے سے اٹھائے سوالات کو جھٹلانے کی کوشش نہیں کی۔ عالمی عدالتِ انصاف میں وہ بنیادی طورپر کلبھوشن کو سنائی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کورکوانے گئی۔ اس کے بعد خواہش یہ تھی کہ اس کے سفارت کاروں کو کلبھوشن تک رسائی دی جائے۔

عالمی عدالتِ انصاف میں بھارت کی جانب سے یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہوا کہ کلبھوشن ایک عام بھارتی شہری تھا۔ جاسوس نہیں۔ اس کی پھانسی رکواکر بھارتی سفارتکاروں کو محض اس تک رسائی حاصل کرنے کی خواہش تھی۔

روس اور امریکہ کے درمیان جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی تودونوں فریقین کے جاسوس کئی بارگرفتار ہوجایا کرتے تھے۔ گرفتار ہوئے جاسوسوں کو سنگین سزائیں بھی سنائی جاتی رہیں۔ اور ان کے مقدمات عام عدالتوں کے روبرو شاذہی آئے۔ گرفتار اور سزا یافتہ جاسوسوں کی اکثریت چند ’’نازک مقامات‘‘ پر Swapکرلی جاتی۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ جب روس امریکہ میں قید اپنے کسی جاسوس کی رہائی کا طلب گار ہوتا تو اپنی قید میں موجود کسی امریکی جاسوس کی رہائی کی پیش کش کردیتا۔ ایسی پیش کش امریکہ کی جانب سے بھی ہوتی رہی۔

سرد جنگ کے تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ حقیقت اپنے ذہن میں رکھنا ہوگی کہ کلبھوشن کو گرفتار کرنے کے بعد ہمارے قومی سلامتی اداروں نے بھرپور تفتیش کے ذریعے اس سے وہ تمام معلومات حاصل کرلی ہوں گی جن کا حصول لازمی تھا۔ ان معلومات کے حصول کے بعد اسے پھانسی کی سزا دینے میں عجلت دکھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ گلی کی زبان میں بات کریں تو زندہ کلبھوشن کا ہم نے قید میں ’’اچار‘‘ نہیں ڈالنا۔ ہمارے لئے وہ اب انگریزی زبان میں Dispensable Commodity بن چکا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں ایسے کئی مراحل آسکتے ہیں جہاں اس کی رہائی کے عوض ہم کسی ٹھوس پیش رفت کی توقع رکھ سکتے ہیں۔

فی الوقت ٹھوس حقیقت فقط یہ ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ آجانے کے باوجود وہ ہماری قید میں ہے۔ اس کی رہائی کا حکم نہیں ہوا۔ اس کے ’’جاسوس‘‘ ہونے والا سوال زیر بحث ہی نہیں آیا۔ اس سوال کا زیر بحث نہ آنا ہی ہمارے مؤقف کی تائید ہے۔

بہت ہی ’’جھٹکے‘‘ ذہن کے ساتھ کلبھوشن کے معاملے کو دیکھتے ہوئے مجھے اس بحث پر بہت حیرانی ہوئی جو پاکستان اور بھارت کے جید دانشوروں نے اپنے ہی ممالک کے ’’محبانِ وطن‘‘ کے ساتھ ٹویٹر پر برپا کررکھی تھی۔ اس بحث پر نگاہ رکھتے ہوے بلھے شاہ کا ’’علموں بس کریں او یار‘‘ بھی ذہن میں گونجتا رہا۔

کلبھوشن کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے جید دانشوروں کے گرانقدر دلائل ابھی ہضم نہیں کرپایا تھاکہ امریکی صدر کا لکھا ایک ٹویٹ نمودار ہوگیا۔ اس ٹویٹ کے ذریعے ٹرمپ نے پاکستان میں حافظ سعید کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کیا۔ تاثر یہ دیا کہ موصوف کی ’’دس برس‘‘ سے تلاش جاری تھی اور بدھ کے روز ہوئی گرفتاری ’’دوسال سے جاری دبائو‘‘ کی بدولت ہوئی ہے۔ یہ ٹویٹ دیکھتے ہی میں نے اپنا سرپکڑلیا۔

مجھ جیسے فارغ لوگ ٹویٹر پر یاوہ گوئی میں مصروف ہوں تو اسے کئی حوالوں سے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔سوشل میڈیا شاید ایجاد ہی اس لئے ہوا ہے کہ لوگ فراغت کے لمحات میں اپنے اذہان اور دلوں میں جاگزیں ہوئے تعصبات کا ڈٹ کر اظہار کرسکیں۔ کسی وڈیو کو پوسٹ کرتے ہوئے ثابت کریں کہ ’’بھاری بھرکم‘‘ معاوضے لینے والے صحافی کام چور ہیں۔’’خبر‘‘ دینا چھوڑ چکے ہیں۔’’لفافے‘‘ لے کر اپنی پسند کے سیاست دانوں کی مدح سرائی میں مصروف رہتے ہیں۔ اب دورCitizen Journalismکا ہے۔ شہریوں کو ’’حقیقی‘‘ خبر کے حصول کے لئے اپنے سمارٹ فونز کے استعمال کے ذریعے اپنی مدد آپ کرنا ہوگی۔

ڈونلڈٹرمپ مگر اس وقت دُنیا کی واحد سپرطاقت تصور ہوتے ملک کا صدر ہے۔اسے یہ آئینی حق حاصل ہے کہ دنیا کے کسی بھی مقام پر ایک بٹن دباتے ہوئے ایٹم بم گرادے۔ایسے خوفناک اختیار کے حامل شخص کے بارے میں مجھ ایسے سادہ لوح افراد کے لئے یہ فرض کرنا ضروری ہے کہ اسے جدید ترین آلات سے لیس انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے ’’ٹھوس‘‘ خبریں ملتی ہیں۔ وہ شخص جب ’’دس سال کی تلاش‘‘ والا ٹویٹ لکھے تو دل خوف سے کانپ جاتا ہے۔

نظر بظاہر ٹرمپ کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے ووٹروں کو یقین دلائے کہ اس کی جانب سے بڑھائے ’’دبائو‘‘ کی وجہ سے حافظ سعید گرفتار ہوئے۔ امریکی معاشرے کو خوب جانتے ہوئے لیکن مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ٹرمپ کے ووٹروں کا شاید ایک فی صد بھی یہ نہیں جانتا ہوگا کہ بدھ کے روز پاکستان میں گرفتار ہوئے حافظ صاحب کون ہیں۔ ’’دوسال دبائو‘‘ کا ذکر یقینا ٹرمپ نے بھارتی حکومت کو خوش کرنے کے لئے کیا۔ بھارتی حکومت کی امریکی صدر کی جانب سے نازبرداری کی وجوہات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ’’دس سال‘‘ تک پھیلی’’تلاش‘‘ کا دعویٰ مگر یہ پیغام دیتا ہے کہ امریکی صدر ٹھوس حقاق سے قطعاََ بے بہرہ ہے۔

ٹھوس حقائق سے امریکی صدر کی رعونت بھری بے اعتنائی کا ادراک کرتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ موصوف کی پاکستان کے وزیر اعظم سے وائٹ ہائوس میں 22جولائی کے دن ایک ملاقات بھی ہونا ہے۔اس ملاقات میں وہ عمران خان صاحب سے کیا گفتگو کرے گا اس کے ’’معیار‘‘ کا اندازہ بدھ کے روز لکھے ہوئے ٹویٹ سے ہوگیا۔ ربّ سے التجا ہی کرسکتا ہوں کہ وہ پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد چند دنوں کے لئے اپنے سمارٹ فون سے دور رہے۔ ٹویٹ لکھنے کی فرصت ہی اسے نصیب نہ ہو۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).