اخلاقیات کیا اجتماعی وصف ہے یا انفرادی؟


کسی بھی انسان کا بہتر سماجی شعور اور اس سے اجتماعی طور پر وضع کردہ اصول و قواعد پر مناسب عمل پیرائی اخلاقیات کہلائے گا۔ ضروری نہیں کہ سماجی شعور اجتماعی طور پر بلند ہو تو اخلاقیات کا معیار بہتر ہوگا۔ درحقیقت ایک عرصے سے جاری رسوم و رواج اخلاقیات کی تدوین میں ممد ہوتے ہیں۔ اخلاقیات کے اجتماعی پیمانے معیشت میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ بدلتے جاتے ہیں جیسے جاگیردارانہ سماج کی اخلاقیات اور نوع کی ہوگی، سرمایہ دارانہ سماج کی اور۔ زرعی سماج کی اخلاقیات کی گہرائی اور گیرائی صنعتی سماج کی اخلاقیات کی گہرائی اور گیرائی سے زیادہ محکم ہوگی جبکہ بالا تر صنتعتی سماج کی اخلاقیات اتھلی اور نرم رو ہوگی۔

اخلاقیات کا ہونا کیا ضروری ہے؟ جی ہاں اس کا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ لوگ ایک خاص قسم کے سماج میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اگر وہ اخلاق سے عاری ہو جائیں تو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے مخصوص معاشرے میں مروج رسوم کے مطابق اخلاق باختہ کہلائیں گے۔ اخلاقیات کا نہ ہونا یا بداخلاقی کرنا تو کمتر ترین سطح کے سماج میں بھی برا سمجھا جائے گا۔

کیا ایک معاشرے میں بسنے والے لوگ ایک ہی طرح کی اخلاقیات کے پیروکار ہوتے ہیں؟ عمومی طور پر تو ایسا ہی ہوتا ہے مگر سماج کے وہ حصے جو سماج مخالف ہوتے ہیں وہ اخلاقیات کے تمام قواعد پر تو عمل پیرا نہیں ہوتے البتہ اخلاقیات کے کچھ حصوں سے گریز ان کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا۔

سماج مخالف عناصر کے علاوہ وہ لوگ اور تنظیمیں بھی علانیہ طور پر کم مگر چھپ چھپا کر زیادہ مروج اخلاقیات سے اغماض برتیں گے جو خود کو باغی یا انقلابی سمجھتے ہوں یا فی الواقعی ہوں۔

رائج اخلاقیات سے پہلو تہی یا اس کی دھجیاں اڑانا انفرادی طور پر مختلف اعمال کی صورت میں کیا جا سکتا ہے مگر اجتماعی طور پر تنظیموں میں بھی مقامی اخلاقیات کے کچھ اصولوں کا کلی یا جزوی طور پر دھیان رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ مثال کے طور کچھ اسلامی ملکوں کی کمیونسٹ پارٹیوں میں عادی شراب نوش افراد یا جنسی بے راہروی ( ایسا عمل جس سے متعلقہ سماج میں برا سمجھا جاتا ہو یا وہ قابل قبول نہ ہو ) کرنے والے کو رکن نہیں لیا جاتا یا معلوم ہونے پر نکال دیا جاتا ہے جیسے ایک کامریڈ نے جب اپنی اہلیہ کی چھوٹی بہن سے تعلقات استوار کر لیے تھے تو اس کی پارٹی رکنیت ختم کر دی گئی تھی۔

ایسے ہی اس طرح کے نام نہاد باغی یا انقلابی کسی ملک میں مذہبی طور پر ممنوع شراب بھی پیتے ہیں اور فری سیکس پر یقین رکھتے ہوئے اس پر عمل درآمد بھی کرتے ہیں، معاملہ وہاں بگڑتا ہے جب عورت حاملہ ہو جائے۔ اول تو حاملہ کرنے والا اسے اسقاط کرانے کو کہتا ہے اور اگر وہ پیداکرنے پر بضد ہو تو اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ بچے کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔

سماجی رسوم و رواج کو توڑنا اخلاقیات سے گریز کا ایک انگ ہے مگر سب سے زیادہ باغیانہ رویہ اخلاقیات کے اسی حصے کی نفی کو سمجھا جاتا ہے جو ابتدائے آفرینش سے انسان کے مصائب اور انسان کی آفرینش کے بعد انسانوں کی افزائش کا سبب بنا یعنی عورت اور مرد کا اتصال۔

یہ درست ہے کہ بیاہ ایک ایسا سماجی ادارہ ہے جو انسانی تاریخ میں تب وضع ہوا جب مردانہ بالا دستی کا رواج ہوا تھا مگر میں اور آپ اس کی چاہے جتنی بھی نفی کیوں نہ کریں پھر بھی تاحال یہ اہم ترین سماجی بندھن ہے جو کنبے کی تشکیل کا ذریعہ ہے۔ مرد اور عورت کے ساتھ رہنے کے جتنے بھی دیگر انداز ہیں جو مغرب میں زیادہ اپنائے گئے ہیں جیسے بن بیاہ کے باہم زندگی بسر کرنا، بیاہ کے بعد یا بیاہ کے بغیر اکٹھے مگر علیحدہ علیحدہ رہنا یعنی Living apart together وہ اسی طریق اتصال کی مختلف اشکال ہیں کیونکہ ان میں رفاقت طویل عرصے تک ہوتی ہے۔ یہ مختلف انداز بھی مخصوص مقامات کی اخلاقیات کا حصہ ہیں۔

صنعتی سماجوں میں بھی اخلاقیات سے گریز کی صورت عورت بازی یعنی womanizing یا مرد کشی یعنی nymphomaniac۔ ism کو مقامی اخلاقی قواعد کی خلاف ورزی خیال کیا جاتا ہے اور ایسے مرد بیشتر لوگوں کی نگاہوں میں برے اور نفسیاتی مریض اور عورتیں باقاعدہ نفسیاتی مریض اور غیر مناسب خیال کیا جاتا ہے۔

ایسے لوگوں کا باہمی خدشہ کسی جنسی مرض میں مبتلا ہونا اور خاص طور پر عورت کا جنسی مرض کے علاوہ حاملہ ہو جانا ہوتا ہے۔ جنسی مرض میں مبتلا ہونا اس لیے بھی قرین قیاس ہوتا ہے کہ نفسیاتی امراض میں مبتلا یہ مرد و عورت جذباتی عمل کو جلد اور بلا کسی تحقیق و تفتیش کے سرانجام دے لیتے ہیں۔ طے ہے کہ جس کے بھی شرکائے بدن زیادہ ہوں گے وہ اتنا ہی غیر محتاط ہوگا یا ہوگی۔

ایسے افراد کی اخلاقیات تو ویسے ہی کمزور ہوتی ہے مگر اس کو سپر بالعموم شراب نوشی کے بعد ملتا ہے جب شرکت بدن کی خواہش سوا تر ہو جاتی ہے، اس کے باوجود اخلاقیات کا کچھ نہ کچھ عنصر کسی نہ کسی میں پھر بھی باقی رہتا ہے مثال کے طور پر ایسی ہی ایک شراب نوش اور جنسی طور پر آزادخیال خاتون کے ساتھ جب اس کی سہیلی کے خاوند نے، جو اس کے متعلق سب کچھ جانتا تھا، دست درازی کی کوشش کی تو اس نے مخمور لہجے میں اس سے کہا تھا، نہیں تم میری سہیلی کے شوہر ہو۔ یہ اس ملک میں ہوا جہاں شراب پینے اور جنسی تعلق کی آزادی ہے یعنی وہاں بھی ڈائن ساتھ کے کئی گھر چھوڑ جاتی ہے۔

اس کے برعکس بظاہر ایسے اسلامی ممالک میں جہاں ان سب کی آزادی نہیں بعض اوقات کچھ لوگ اپنی سفلی خواہش کی تکمیل کرنے میں اپنے ساتھ ان کو بھی، جو انہیں آپس میں متعارف کرانے کا سزاوار ہوا ہو، شرمندگی میں مبتلا کر دیتے ہیں مگر ان کو بھلا کیا شرم جو ویسے تو اخلاقیات کی جھوٹی دبیز فرغل اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں مگر اپنوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر، رات کے اندھیرے میں یکسر برہنہ ہو جاتے ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).