تبدیلی تحریک کی آفاقیت اور عالمی استعمار


قرائن بتا رہے ہیں کہ عالمی سازشوں نے کپتان عمران خان کے آفاقی فلاحی نظام کہ جس کو عرفِ عام میں ”تبدیلی“ کے نام سے سمجھا جاتا ہے، کے خلاف پیش بندی کر لی ہے۔

عمران خان کہ جو کرکٹ کے مشہور کھلاڑی رہے ہیں اور جن کا شمار کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی متعدد کامیاب ٹیموں کے کپتانوں میں ہوتا ہے، کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی مناسبت سے کپتان عمران خان کہلاتے ہیں۔ البتہ کپتان کہلانے کا یہ شرف کسی اور پاکستانی کرکٹر کو کہ جو کرکٹ ٹیم کا کپتان بھی رہ چکا ہو، حاصل نہیں ہؤا اور نہ ہی یہ سعادت کسی دوسرے ملک کے کسی کھلاڑی کے حصے میں آئی ہے۔

کرکٹ کا کھیل اُن کے دل و دماغ، شخصیت اور تجربے میں اتنا رچا بسا ہے کہ وہ سیاست کے وسیع تر میدان اور حکومت چلانے کے پیچیدہ کام میں اکثر و بیشتر اپنے کرکٹ کے تجربات کی مثالیں دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ کرکٹ کے کھیل کی ترکیبات بھی اپنی تقریروں میں تواتر سے استعمال کرتے ہیں۔ اُن کے چاہنے والے کہ جنہوں نے 2018 کے پاکستان کے عام غیر جانبدارنہ اور شفاف انتخابات میں کپتان عمران خان کو بھرپور سپورٹ کیا، جس کی بدولت اُن کی جماعت وزیراعظم منتخب کرنے والی اسمبلی میں ممبران کی کم از کم درکار تعداد سے محض چند سیٹیں ہی پیچھے تھی اور وہ دوسرے چھوٹے گروپوں کی مدد سے مطلوبہ تعداد پوری کر کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے تھے، اُن کو کپتان یا خان کے نام سے پکارنا پسند کرتے ہیں۔

اور ستر سال سے کچھ سال کم عمر ہونے کے باوجود اُن کی شخصیت کی خوبصورتی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے اور انہیں ایک ”ہینڈسم وزیر اعظم“ کہتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ اُن کے مخالفین نے اُن کے لئے سیلیکٹڈ اور چنتخب جیسے الفاظ گھَڑ رکھے ہیں تا کہ اُن کی آزادانہ منتخب وزیراعظم والی حیثیت کو مشکوک کر دیں، اُن کے چاہنے والوں کا خیال ہے کہ خان پاکستان کے مقبول ترین وزیر اعظم ہیں۔ وہ ایسے کرتے وقت، ماضی میں دوتہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں بلکہ ان کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے۔

ویسے تو دنیا میں اکا دُکا کرکٹرز نے سیاست کے میدان میں قسمت آزمائی ہے مگر ایسے نہیں کہ جیسے ہمارے کپتان نے۔ نہ تو کسی نے سیاسی دھارے کا رُخ موڑنے کا دعوی کیا اور نہ قوم کی تقدیر بدلنے کا خواب دیکھا۔ یہ کام صرف عمران خان نے کیا اور بقول اُن کے انہوں نے پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے لئے بائیس سال جد و جہد کی ہے۔ اور یہ جدوجہد تبدیلی کی جدوجہد ہے۔

اگرچہ خان نے خود تو کوئی ایسا دعوی نہیں کیا مگر واقفانِ حال جانتے ہیں کہ تبدیلی کی یہ تحریک کوئی علاقائی تحریک نہیں ہے کہ محض پاکستان یا زیادہ سے زیادہ برِصغیر تک ہی محدود ہو بلکہ بہت جلد یہ تحریک چاروں برِاعظموں کا احاطہ کرنے والی ہے۔

اس تحریک کی آفاقیت کسی دعوے کی محتاج نہیں ہے کہ دنیا میں بنی نوعِ انسان جس درماندہ صورتِ حال کا شکار ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی عالمگیر شخصیت کہ جو دنیا کے مختلف حصوں میں، مختلف مذاہب اور مختلف طبقۂ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ساتھ قریبی رشتہ داری، تعلق اور روابط رکھتی ہو، اس صورتِ حال سے نمبرد آزما ہونے کی کوئی سبیل کرے۔ اور خان سے بہتر ایسی کوئی شخصیت ہو نہیں سکتی۔

اس تحریک کی آفاقیت کی ایک ہلکی سی جھلک اس وقت اقوامِ عالم نے دیکھی جب خان صاحب نے لندن کی مئیر شپ کے انتخابات میں پاکستانی نژاد، مسلمان امیدوار، صادق خان کے مقابلے میں ایک غیر مسلم امیدوار کی حمایت کی تھی۔ اگرچہ اس حمایت کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا کہ ابھی دنیا اُن کے آفاقی پیغام سے کما حقّہ آگاہ نہیں ہو پائی تھی۔

تبدیلی کی تحریک کی آفاقیت ابھی کچھ اور سال پردے میں رہتی کہ خان کے انتہائی قریبی رفیقِ کار، آزمودہ ساتھی اور اُن کی کابینہ کے نہایت ہی اہم رکن، شیخ رشید نے اپنے ایک تازہ ترین بیان میں اشارتاً اس کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ عمران خان کے حالیہ دورۂ امریکہ سے جو کہ جولائی 2019 کے ہی تیسرے ہفتے میں منعقد ہونے جا رہا ہے، امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کا فیصلہ ہو گا۔ یہ اتنی بڑی بات ہے کہ جس سے دنیائے عالم میں ایک طوفان برپا ہو سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ خان صاحب کے اس دورے میں امریکی صدر پر خان صاحب سے ملاقات پر پابندی لگا دی جائے یا سخت نگرانی میں ہی مختصر سی ملاقات کروا دی جائے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس سے پہلے 2105 کے امریکی انتخابات پر روس کے اثرانداز ہونے کی بحث ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔

بدیں حالات، استعماری طاقتوں اور اُس کے گماشتوں نے تبدیلی کی اس تحریک کو ناکام کرنے یا اُسے پاکستان یا زیادہ سے زیادہ برصغیر تک ہی محدود رکھنے کے لیے اپنی چالیں چلنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ لہٰذا، پہلے قدم کے طور پر پاکستان کی معیشت کو تہس نہس کرنے کے اقدامات کیے گئے تا کہ باقی دنیا کی عوام ایسی تبدیلی سے عبرت پکڑیں۔

یاد رہے کہ تادمِ تحریر، خود خان صاحب یا اُن کے کسی قریبی ساتھی نے ایسا اعلان نہیں کیا سوائے شیخ رشید کے اوپر بیان کردہ اشارے کے، لیکن عالمی استعمار اس سے قبل ہی تبدیلی کی تحریک کے خلاف بند باندھنے کے عمل میں مصروف ہے۔ خود خان صاحب کے حالیہ دورے سے پہلے ہی امریکہ کی دفتر خارجہ کی ترجمان خاتون نے عالمی حلقوں میں ایک ارتعاش پیدا کر دیا جب انہوں نے کہا تھا کہ دفترِ خارجہ آنے والے دنوں میں خان صاحب کے دورے سے لاعلم ہے۔ یہ بیان انہوں نے اُس وقت دیا کہ جب خان صاحب کے چاہنے والے، خان صاحب کے اس دورے کو پاکستان کی تاریخی فتح قرار دے چکے تھے۔ اس سے ملتی جلتی ایک کوشش، پچھلے دنوں روس نے بھی کی کہ روس میں منعقد ہونے والی ایک اہم بین الاقوامی کانفرنس میں بھارتی صدر کو تو مدعو کیا گیا ہے مگر خان صاحب کو نہیں۔

ایسے میں کہ عالمی سازشی عناصر اس تحریک کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں پاکستان کے اندر بھی اس تحریک کو ناکام کرنے کے لئے ایک فتنہ برپا ہے۔ مثلاً وہی شیخ رشید جو کپتان کی امریکی صدر سے ملاقات کو آمدہ امریکی انتخابات کے لئے کلیدی اہمیت دے رہے ہیں، کئی بار اپوزیشن کے راہنماؤں کے مالی کرپشن کے ناقابل تردید ثبوت دے چکے ہیں اور چند ٹی وی اینکرز اور صحافی بھی اس بات کی بھرپور تائید کر چکے ہیں مگر مذکورہ اپوزیشن لیڈر ہیں کہ اپنا جرم تسلیم ہی نہیں کر رہے اور بات کو طول دینے کی خاطر، ماہ و سال تک اپنے جرم ثابت ہی نہیں ہونے دیتے جس کے نتیجے میں نہ صرف تبدیلی کی تحریک کو دھچکا لگ سکتا ہے بلکہ عالمی استعماری طاقتوں کے عزائم کی آبیاری بھی ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).