خوبصورت بے رحم عورت اور روحانی سائنسدان


کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کرنے اور پچاس سے زائد تحقیقی مقالاجات چھاپنے کے بعد ہم سائنسدان تو بن بیٹھے مگر زندگی اور اس کی روح کو سمجھنے سے کو سوں دور تھے۔ انسانی زندگی میں دلچسپی اور سماجی رویوں کی وجہ سے میرے دوست اکثر کہا کرتے تھے کہ تم سائنس کے آدمی بالکل نہیں لگتے۔ لیکن ساری زندگی پڑھنے لکھنے میں گزری اور بچپن میں ماں باپ نے بھی بالکل برائلر مرغی کی طرح تربیت کی تھی۔ زندگی کو بس اتنا ہی جانتا تھا جتنا کہ خود گزار رہا تھا۔

زمانہ طالب علمی میں زندگی موٹرسائیکل اور گھر تک محدود تھی اور بڑے ہوئے تو بس صرف اتنا فرق آیا کہ موٹر سائیکل کی جگہ کار نے لے لی تھی۔ زندگی کا تجربہ کیا تھا، لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں، کون انسان کیسا ہے، ہمیں کچھ خبر نہیں تھی۔ ہمیں تو صرف اتنا پتا تھا کہ اگر ہم ٹھیک ہیں تو پھر سارا زمانہ ہی ٹھیک ہے، جب ہم نے کسی سے کبھی کوئی دھوکہ فراڈ نہیں کیا تو کوئی ہمارا برا کیوں کرے گا۔ بڑی ہی محدود زندگی تھی ریسرچ لیب، کالج اور گھر۔ گھر میں بھی سارا دن اور پھر آدھی رات تک ریسرچ آرٹیکلز لکھنا اور ان کو چھپوانا ہی زندگی کا مقصد تھا۔ ایک جنون تھا کہ دنیا سے چلے جانے کے بعد لوگ ہمیں ریسرچ اور تحقیق کے حوالہ سے ہمیشہ یاد رکھیں۔

ایک واقعہ زندگی میں طوفان بن کر آیا اور سارے زندگی ہی بدل گیا۔ فارماسیوٹیکل ڈرگز پر سرچ کے لیے مجھے ایک ریسرچ سینٹر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پر موجود انتظامیہ سے تین دن کا وقت لیا ہم نے کچھ ٹیسٹ کرنے تھے جن کے لیے ان کی لیبارٹری کی سہولیات درکار تھیں۔ وہاں سے اجازت ملنے کے بعد میں وہاں پہنچ گیا۔ تین دن کا کام تھا مگر ہر ٹیسٹ 6 ماہ بعد کرنا تھا۔ ابھی لیب میں میرا پہلا ہی دن تھا اور میں اپنے کام میں مصروف تھا کہ اچانک ایک انتہائی خوبصورت خاتون لیب میں داخل ہوئی اور مجھے سلام کیا۔

میں نے سلام کا جواب دیا اور اپنی نشست پر کھڑا ہوگیا۔ وہ میرے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی اور میرے کام کے بارے میں پوچھنے لگے۔ میں نے ان کو بتایا کہ میرا آج پہلا دن ہے اور کام ٹھیک ہو رہا ہے۔ اس خوبصورت خاتون نے کہا کہ اگر میرے لائق کوئی کام ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا میں اس ادارے کے سربراہ ہوں اور مجھے آپ جیسے قابل آدمی مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ میں نے بھی روایتی طور پر شکریہ ادا کیا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ یہ میری اس خوبصورت عورت سے پہلی ملاقات تھی۔

اگلے چھ ماہ کے بعد میں دوبارہ جب اس لیپ میں پہنچا تو دو گھنٹے گزرنے کے بعد وہی عورت دوبارہ لیب میں آئی اور سلام کرنے کے بعد لیب میں موجود کرسی پر بیٹھ گئی۔ میں بھی اس کی طرف متوجہ ہوا کیونکہ بہرحال وہ اس ادارے کی سربراہ تھی اور میں وہاں پر ایک مہمان کی حیثیت سے ان کے ادارے کی سہولیات کو استعمال کر رہا تھا۔ اس نے میرے ریسرچ آرٹیکلز کی تعریف کی اور میرا کچھ تعارف حاصل کیا۔ اس گفتگو میں میری توجہ اس کی طرف مبذول ہو گئی۔

وہ دیکھنے میں واقعی بہت خوبصورت تھی اور ایک ماڈل کی طرح لگتی تھی۔ اس کی بڑی بڑی شرابی آنکھوں اور شہد بھری مسکراہٹوں میں اک عجب دلکشی تھی۔ موبائل نمبر اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا تبادلہ ہوا اور پھر وہ چلی گئی۔ اب میرا اور اس کا رابطہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعے تھا۔ میں نے کبھی اس سے فون پر بات تک نہیں کی لیکن مجھے اس کے اندر ایک کشش محسوس ہونا شروع ہو گئی۔ وہ ایک لبرل اور بے باک قسم کی خاتون تھی۔ اس کی جھیل سی گہری آنکھیں اور کھلے سنہری بال اس کو مزید خوبصورت بنا رہے تھے۔ کسی بھی انسان کا اس کی طرف کشش محسوس کرنا ایک فطری عمل تھا۔

ایک سال کے بعد جب دوبارہ اس لیب میں گیا اور حسبِ روایت اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کام ختم کرنے کے بعد میں نے سوچا کہ آج وہ عورت نہیں آئی اور میرا بھی یہاں آخری دن ہے کیوں نہ اس سے ملاقات کرتا جاؤں اور ان کا شکریہ بھی ادا کردوں۔ جب میں اس کے کمرے میں پہنچا وہ اپنی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ میں نے اسے سلام کیا اور اس کے سامنے میز کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ کچھ کام کام کر رہی تھی اس نے کام ختم کیا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔

اس کی مسکراہٹ میں ایک عجیب سی کشش اور محبت تھی۔ اس نے مجھ سے بہت ساری باتیں کی اور مجھے وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ الغرض ہم دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو چکے تھے اس نے میرے ہاتھ کو چھوا اور کبھی نہ ساتھ چھوڑنے کا وعدہ کیا۔ مجھے یہ سب ایک خواب لگ رہا تھا وہ مجھے کہتی تم ایک بھولے انسان ہو یہ دنیا تمہیں کھا جائے گی۔ تمہیں دنیا کا کچھ پتہ نہیں ہے اس دوران کئی لوگ آفس کے کمرے میں آئے اور مجھے دیکھ کر بغیر کچھ کہے واپس چلے جاتے۔

میں اس دن اپنا کام ختم کرکے گھر واپس آ گیا۔ اب اس سے میرا مسلسل رابطہ تھا وہ مجھے اکثر کہا کرتی تھی کہ میں ایک ویمپائر ہوں۔ مجھے تمہارے خون کے چند قطرے چاہیے میں مذاق سمجھتا کہ اس دور میں کہاں سے آئی ویمپائر اور پھر میں اس سے زندہ مل چکا ہوں۔ میں اس کی محبت میں دیوانہ ہوا جا رہا تھا اور وہ بھی مجھے پہ یقین د لا رہی تھی کہ وہ بھی مجھے بہت چاہتی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے روحانی دوست ہیں۔

پھر کچھ عرصے بعد مجھے کسی کام سے اسی لیب میں جانے کا اتفاق ہوا میں سربراہ ادارہ کے کمرے میں گیا تو وہاں کوئی اور صاحب بیٹھے تھے میں نے ان سے اس عورت کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ یہاں سے ٹرانسفر ہو گئی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ کون جناب یہاں تو کبھی بھی کوئی عورت سربراہ نہیں رہی میں پریشان ہو گیا میں نے وہاں کے ورکرز کو بلوایا اور ان سے پوچھا کہ پچھلے ماہ جب میں یہاں اس کرسی پر بیٹھا تھا تو سامنے ایک عورت بیٹھی تھی انہوں نے کہا کہ نہیں جناب ہم جب بھی آے آپ اکیلے ہی بیٹھے تھے ہم سمجھے کہ آپ ڈائریکٹر صاحب کا انتظار کر رہے ہیں۔

اب مجھے ایک دم 440 وولٹ کا جھٹکا لگا اور میں اپنے اعصاب کھونے لگا کہ اچانک مجھے دیوار پر لگا ایک گروپ فوٹو نظر آیا جس میں اس خوبصورت عورت کی تصویر تھی۔ میں نے ان کی توجہ اس تصویر والی عورت کی طرف کرائی اور کہا کہ جناب یہ وہ خوبصورت عورت ہے جو یہاں موجود تھی اور میرے ساتھ تقریبا تین گھنٹے بیٹھی رہی۔ تصویر دیکھنے کے بعد ڈائریکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ بیٹھ جاؤ اور میرے لئے پانی منگوایا۔ میرے پانی پینے کے بعد مجھے سے کہا کہ بیٹا دیکھو تم ایک سائنسدان ہو اور صرف مادی چیزوں پر ہی یقین رکھتے ہو، جو دیکھتے ہو اسے ہی سچ مانتے ہو۔

میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں، میں ساری بات سمجھ گیا ہوں مگر تمہیں یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا۔ میری پریشانی مزید بڑھ گئی۔ پھر انھوں نے مجھے بتایا کہ یہ عورت واقعی بہت خوبصورت تھی اور اس ادارے میں رہی بھی ہے مگر اس کو اس دنیا سے گئے ہوئے تقریبا سولہ سال ہوگئے ہیں اس کا 2003 میں انتقال ہو گیا تھا۔ یہ خوبصورت عورت اب تک تین لوگوں کو نظر آئی ہے دو تو پہلے ہی پاگل ہو چکے ہیں اور تیسرے تم ہو۔

میں امید کرتا ہوں کہ تم میری بات کو غور سے سنو گے اور حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرو گے۔ پھر وہ مجھے باہر شہر میں لے گئے اور مجھے ایک پاگل آدمی کو دکھایا جو سڑکوں پر آوارہ پھر رہا تھا۔ مجھے بتایا کہ یہ انسان یہاں پر اسسٹنٹ کمشنر تھا اور اس بے وفا خوبصورت عورت کے عشق میں مبتلا ہوگیا اور اب دنیا سے بے پرواہ ہو چکا ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ انسان پورے علاقے کا مالک تھا اور آج سڑکوں پر آوارہ بے یارومددگار پھر رہا ہے۔ دوسرا شخص ابھی تک پاگل خانے میں ہے اور اُس کا علاج چل رہا ہے۔ میرے بیٹے تم اپنے دماغ کو کنٹرول میں رکھو اور حقیقی دنیا میں ہی رہو۔

اب میرا دماغ ماؤف، ہونٹ خشک اور گلے سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ ڈائریکٹر صاحب نے بتایا حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک روح ہے جو کہ صرف چند منتخب انسانوں کو نظر آتی ہے اور ان کو پیار کے جال میں پھنسا کر پاگل بنا کر چھوڑ دیتی ہے اس سے زیادہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ میری حالت بہت خراب تھی میں گھر واپس آیا اور تین دن تک کسی سے بات تک نہیں کی اور یہی سوچتا رہا کیا واقعی روح کسی انسان کو زندہ ہو کر مل سکتی ہے یہ سوال میرے ذہن میں رہے گا جس نے نے مجھے مادی سائنسدان سے ایک روحانی سائنسدان بنادیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).