عالمی سیاست اور ہمارا دیہی نظام


عالمی سیاست اور پاکستانی دیہی نظام میں عمومی طور پر جب کہ پنجاب کے دیہی نظام میں خصوصی طور پر بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ اگر ہم باریک بینی سے جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا نظام بھی اسی ڈگر پرچل رہا ہے جیسا کہ ہمارا دیہی نظام چلا آ رہا ہے۔ جس طرح سے ہمارے دیہاتوں میں کسی عام بندے کی چودھری کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے یا غلط بات پر ٹوکنے / للکارنے کی ہمت نہیں ہوتی بالکل ویسے ہی عالمی سیاست میں کسی بھی کمزور ملک کی امریکہ کو اس کے غلط اقدامات پر دھمکانے یا اپنی شرائط منوانے کی جراءت نہیں ہوتی ہے۔

اس عالمی نظام میں یونائیٹڈ نیشن یعنی کہ اقوام متحدہ کا کردار ہمارے دیہی نظام میں تھانے دار کا سا ہے جو کہ آئینی و قانونی طور پر ہوتا تو معاشرے کے سبھی طبقات یعنی امیر وغریب کے لیے یکساں ہے لیکن عملی طور پر صرف علاقے کے چودھریوں اور دیگر با اثر افراد کے گھر کی باندی ہے۔ اسی طرح سے اقوام متحدہ بھی ایک ایسا تھانہ ہے جس میں چودھری (امریکہ) اور دیگر اثرورسوخ والے ویٹو پاورزکی دیگر ممالک کی نسبت زیادہ چلتی ہے اور جب اس عالمی نظام کے چودھریوں نے اپنی پسند کی کوئی عالمی قانون سازی کرنی ہو یا کسی لاچار اور نسبتاً کمزور ملک کو سبق سکھانا ہو تو وہ اس تھانیدار کو استعمال کرتے ہوئے اس پر چڑھائی کر دیتے ہیں جس سے ان کو نام نہاد بین الاقوامی قانون کا تحفظ بھی مل جاتا ہے۔

جس طرح سے ہمارے دیہات میں چودھری جب بہانہ بناکر کسی کو مروانا چاہتا ہے یا کو ئی اور مقصد نکلوانا چاہتا ہے تو وہ گا ؤں کے دیگر با اثر لوگوں (جن سے اس کو اپنے اس اقدام کو چیلنج ہونے کا اندیشہ ہو) کو اعتماد میں لیتا ہے یا پھر اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اپنے کمزور حریف پر ہلہ بول دیتا ہے تا کہ اس کو اخلاقی طور پر بھی کسی اور طاقتور کی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑے بالکل اسی طرح امریکہ (جو کہ اس دنیاکا چودھری ہونے کا دعویدار ہے ) جب کسی شخصیت کو مروانا /بدنام کروانا یا کسی ملک پر اپنی پسند کے نظام اور لوگوں کو لانا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ دیگر سپر پاورز کو اعتماد میں لیتا ہے تا کہ دنیا میں اس کے مؤقف کی نہ تو مخالفت ہو اور نہ ہی اس کا مؤقف کمزور ہو۔

اس کی ماضی قریب میں ہمارے سامنے بہت سی مثالیں ہیں جس میں سپر پاور کا دہشت گردی کانعرہ لگا کر افغانستا ن پر حملہ اور تقریباً دو عشروں تک وہاں پرامریکی فورسز کے ہاتھوں عام لوگوں کی لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتوں پر چودھری کو کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ عالمی نظام کے اس چودھری نے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا سبب بننے والے ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر برطانیہ سمیت اپنے ہمنواؤں کے ساتھ مل کر عراق میں کئی ملینز بے گناہ انسانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی۔

وجوہات صرف یہ تھیں ایک تو عراق کے تیل کے ذخائر پر قابض ہونا تھا اور دوسرا چودھری (امریکہ) کو ایک اوسط درجے کے (ملک) کے آدمی کی بے باکی پسند نہ آئی اور پھر چودھری نے اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر اس شخص (صدام حسین ) کو دنیا کے لیے نشان عبرت بنادیا کہ اگر چودھری (امریکہ) کو آنکھیں دکھاؤ گے تو بغیر کسی وجہ کے بھی تمھارا نام و نشان مٹایا جا سکتا ہے۔ اس طرح کا نشان عبرت لیبیا کے کرنل قذافی کو بھی بنایا جا چکا ہے جب کہ اس کی حالیہ اور تازہ مثال مصر کے منتخب سابق صدر محمد مرسی کی ہے جو کہ چودھریوں کو مذہب پسند ہونے کی وجہ سے ایک آنکھ نہ بھایا اور جمہوری طور پر منتخب ہونے کے باوجودبمشکل ایک سال پورا کر پایا جس کا جرم صرف ان چودھریوں کے سامنے سر نہ جھکانا تھا۔ پاکستان میں بھی چودھریوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے جرم میں پاکستا ن کے دو سابق صدورذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق بھی عبرتناک مثال بنائے جا چکے ہیں

ہمارے دیہی نظام میں چودھریوں کا چہیتا ہر قسم کے قانون سے بالا تر ہوتا ہے خواہ وہ کسی کی زمین و جائیداد پر قابض ہو جائے یا کسی غریب کی بیٹی کو اٹھا کر اس کے ساتھ زیادتی کر ڈالے یا پھر راہ چلتے کسی کو بھی مار ڈالے تو اس کے اوپر کبھی بھی قانون کا ہاتھ نہیں پڑتا۔ قانون کاہاتھ کیوں نہیں پڑتا؟ کیونکہ وہ چودھری اور دیگر با اثر لوگوں کا چہیتا ہے ہوتا ہے جو کہ تھانیدار پر بھی بھاری ہوتے ہیں۔ عالمی سیاسی نظام میں اس کی مماثلت اسرائیل کے ساتھ جا ملتی ہے جس پر پوری دنیا میں کوئی بھی بین الا قوامی قانون لاگو نہیں ہوتا خواہ وہ ایک پتھر مارنے کے بدلے میں بیسیوں بے گناہ لوگوں کو سیدھی فائرنگ کرکے گولیوں سے بھون ڈالے یا وہ جب جی چاہ کوئی بھی بہانہ بنا کر کسی بھی ملک پر فضائی حملہ کر دے یا پھر وہ فلسطینیوں سے زمین ہتھیا کر ان کو چلتا کر دے۔ اس کی وجہ اسرائیل کے پیچھے عالمی چودھری ہیں جو کہ اس کے خلاف اقوام متحدہ میں کوئی بھی ایف۔ آئی۔ آر درج ہونے سے پہلے ہی ویٹو کر دیتے ہیں۔

اس سارے عالمی اور دیہی تناظر میں پاکستان کا کردار گاؤں کے اس کمی کمین کا سا ہے جو اپنی محنت مزدوری کی کمائی سے زیادہ چودھری کے دیے ہوئے ٹکڑوں پر انحصار کرتاآیا ہے۔ جس طرح سے چودھری کے کمی کمین اسلحہ پکڑ کر بھڑکیں مارتے ہوئے چودھری کے واسطے مرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں تاکہ چودھری کی خوشنودی حاصل کر کے چودھری سے زیادہ سے زیادہ دا داور دان وصول کیا جاسکے۔

اسی کمی کاکردار پاکستان نے گزشتہ ادوار میں ادا کیا ہے جب چودھری کی جگہ اپنی سالمیت کو محفوظ بنانے کا نعرہ مار کراور اس کواپنی جنگ قرار دے کر خود لڑنے کے لیے افغانستان پہنچ گیا اور بعد میں جب چودھری (امریکہ) یہاں سے چلا گیاتو پھر دہشت گردی کی صورت میں خودکش دھماکے اور دہشت گردانہ حملے اس کمی کمین (پاکستان) کے حصے میں آگئے اور اب چودھری کے چھوڑ جانے پر اس کمی کی حالت غیر ہو چکی ہے کیونکہ کمیوں کا گزارا چودھریوں کی امداد کے بغیر بہت مشکل ہو جاتا ہے اس لیے اب یہ کمی کمین کبھی تو نئے چودھری (چین) کے دیے ہوئے وعدوں کی طرف دیکھ رہا ہے اور کبھی پھر سے پرانے چودھری (روس) کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں ہے لیکن اس چودھری کی طرف سے ابھی تک کوئی مثبت اشارہ نہ ملا ہے۔ اب حال یہ ہے کہ اس کمی کمین (پاکستان) کا اپنے پیروں پر کھڑے ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ 72 سال گزر جانے کے باوجود اس کمی (پاکستان) کی سوچ آج بھی مانگے تانگے کی سی ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).