اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا


استعفا تو میں بھیج چکا تھا، لیکن مایا نے میرا استعفا آگے نہیں بڑھایا۔ یہ بات مجھے کچھ دنوں بعد معلوم ہوئی۔ میں ڈراما سیریل ’’گردش‘‘ کی رِکارڈنگ میں مصروف تھا، اور مجھے آفس سے کالیں آ رہی تھیں۔ کال کرنے والا ایک سینیئر پروڈیوسر تھا، جس نے میرے اے آر وائے آنے کے بعد ہمیں جوائن کیا تھا۔ اس سینیئر پروڈیوسر اور میں نے پی ٹی وی اکیڈمی اسلام آباد سے ایک ساتھ پروگرام پروڈیوسر کا کورس کیا تھا۔ اس کا اصرار بہت بڑھا کہ میں آفس آوں اور ایک بار بیٹھ کے بات تو کروں۔ میں نے کہا، میں اس وقت ایک ڈرامے کی رِکارڈنگ میں مصروف ہوں، پندرہ دن کے بعد ملاقات ہو گی۔ وہ اس پہ بھی مان گیا۔

نو دِن کی رکارڈنگ کے بعد ایک روز میں ’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ کے دفتر چلا گیا۔ شکیل عادل زادہ کو بتایا کِہ میں نے ملازمت چھوڑ دی ہے۔ اںھوں نے فوری ردِ عمل نہیں دیا، لیکن تھوڑی دیر بعد کہا، زندگی گزارنے کے لیے پیسے کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ انسان کی خواہشوں کے حصول کے لیے سرمایہ  بہت ضروری ہے۔ کتاب پڑھنے کا شوق ہو، تو کوئی کتاب تبھی خریدی جا سکتی ہے، جب جیب میں رقم ہو۔ یوں تھوڑی دیر وہ روپیا پیسا کے فوائد گنواتے رہے۔ میں سمجھ گیا کِہ وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ اُن سے بحث تو نہیں کی جا سکتی تھی، پھر یہ بات بھی کچھ غلط نہ تھی۔

یہی ایک موقع نہیں تھا، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی کئی موقعوں پر بھائی شکیل نے ایسی بات کی ہے۔ لوگوں کی مثال  دے کر بتاتے ہیں، کِہ کیوں کر دولت کی اہمیت ہے۔ یہ شکیل عادل زادہ وہی شخص ہے جس نے ماہ نامہ ’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ کو کئی کئی مہینے، اور دو دو تین تین سال محض اس لیے نہیں شایع کیا، کہ اُن کے معیار پہ پورا اُترتی کہانیوں کا انتخاب نہیں ہو سکا۔ ان کا اصرار رہا،  کہ جب تک ان کے معیار پہ پوری اترتی کہانیاں کا انتخاب نہیں ہو جاتا، ’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ شایع نہیں ہو گا۔ ایک بار ایسے ہی کسی موقع پر جب وہ دولت کے فوائد گنوا رہے تھے، میں نے ہنس کے جتلا دیا، آپ نے خود تو معیار کو پیسا کمانے پر ترجیح دی، اُس طرح رقم کمانے کا سوچا نہیں، جیسے ’’سسپینس ڈائجسٹ‘‘، ’’جاسوسی ڈائجسٹ‘‘ اور دوسروں نے ہر ماہ اشاعت سے کمائی، اور ہمیں یہ تلقین کرتے ہیں، کہ پیسا کمانے کی کوشش کرو؟ بہ جائے ڈانٹنے کے انھوں نے جواب دیا، ’’ہم نے بہت بڑی غلطی کی، نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘ اُن کا یہ کہنا بس کہنا ہی ہے، شکیل عادل زادہ اگلے جنم میں بھی روپے پیسے پر معیار ہی کو ترجیح دیں گے، لیکن ہاں ہم جیسوں کو سمجھائیں گے، میری راہ مت چلنا، کہ اِس راہ میں بہت کٹھنائیاں ہیں۔

میں ایک دِن آفس چلا گیا۔ سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ فرسٹ فلور پہ وہ بڑا سا کمرا جہاں ہماری نشستیں تھیں، اینفو ٹینمنٹ ڈپارٹ منٹ وہاں سے شفٹ ہو کے گراونڈ فلور پہ منتقل ہو گیا تھا۔ اپریل میں جب میں نے اے آر وائے ون ورلڈ جوائن کیا تھا، تب بلڈنگ میں انٹریئر ڈِزائن کا کام چل رہا تھا،  ساتھ آٹھ مہینوں میں ہر شعبے کے الگ الگ حصوں میں، الگ الگ ڈیسک بن چکے تھے۔ اسی سینیئر پروڈیوسر سے جو میرا کورس میٹ رہ چکا تھا، اسی کے کیبن میں بیٹھے تھوڑی دیر گلے شکوے ہوئے، پھر اُس نے کہا، بس میں کَہ رہا ہوں، چپ کر کے جوائن کرو۔ میں نے کہا، ایک ہفتے بعد مہینا پورا ہونے دو، پھر جوائن کروں گا۔ میرا خیال تھا، کِہ میرے ایک مہینے کی تن خواہ تو کٹ ہی جائے گی۔ یہ سب معاملات طے ہونے کے بعد میں وہاں سے اُٹھا۔ ابھی میں آفس ہی میں تھا، کہ اسی سینیئر پروڈیوسر کی کال آ گئی، ’’تم مایا سے نہیں ملے؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ ’’نہیں۔‘‘ وہ بہ ضد ہوا کہ تمھیں ملنا چاہیے۔ میں مایا کے کیبن میں چلا گیا۔ مجھے یاد نہیں کہ دو اجنبیوں کے بیچ میں کیا بات چیت ہوئی۔

مہینا پورا ہونے پر میں نے پھر سے اے آر وائے ون ورلڈ جوائن کر لیا۔ حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ میرے بنک اکاونٹ میں پندرہ دن کی تن خواہ بھی آ گئی۔  بتایا گیا کہ پندرہ دن میری سالانہ چھٹی کے تھے، یہ  سیلری ان دنوں کی ہے۔ اس سارے قضیے کی خبر ہائی کمانڈ کو نہیں تھی، ورنہ ایسا بھی نہیں تھا، کِہ میرے اس طرح استعفا دینے کی ’’بد معاشی‘‘ کو یوں قبول کیا جاتا، کِہ وا پس بلا کر پندرہ دن کی تن خواہ بھی ادا کی جاتی۔ سچ ہے کہ خدا مہربان ہو، تو سبھی  مہربان ہو جاتے ہیں۔

جیسا کہ بتایا گیا، انیق احمد اپنے پروگرام ’’آغاز‘‘ کے لیے مجھے پروڈیوسر رکھنے کو مالکان تک سے جا ملے تھے۔ لیکن اسی دوران میں، میں انھیں اپنے استعفے کی خبر دے چکا تھا۔ اب میں نے اُن کی چاہ کے مطابق ’’آغاز‘‘ کی ذمہ داریاں سنبھال  لیں۔ میں نے اُس پروڈیوسر سے بات کی، جو مجھ سے پہلے ’’آغاز‘‘ کے معاملات دیکھتا تھا، تا کِہ انیق احمد اور پروڈیوسر کے درمیان جو مسائل  پیدا ہوتے ہیں، انھیں سمجھوں۔ میں یہ ذکر بھی کر چکا، انیق احمد اس پروگرام کی ایڈیٹنگ خود کرواتے تھے، تو میں نے انیق بھائی کو یہ کہا تھا، کہ پروگرام کی ایڈیٹنگ میں کرواوں گا، آپ فائنل کٹ دیکھ لینا۔ وہ اس پہ رضا مند ہو گئے تھے۔ بعد میں یہ شو ’’لائیو‘‘ ہونے لگا تھا۔ انیق احمد نہ جانے میرے بارے میں کیا کہیں، اس شو کو کرتے مجھے اُن سے ایک دن بھی پرابلم نہیں ہوئی۔ میں نے شو کے سیٹ میں تھوڑی بہت تبدیلیاں کروائیں، اور لائٹنگ میں بھی تبدیلی لے آیا۔ ’’آغاز‘‘ کے ساتھ ساتھ، ’’ری بوٹ‘‘، ’’عورت کہانی‘‘، ’’عام آدمی‘‘، ’’اسپورٹس روم‘‘ بھی مجھی کو کرنا ہوتے تھے۔

ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن جسے میں نے اپنے شوق سے چنا تھا، یہ میرا جنون تھا۔ میں سولہ سولہ گھنٹے اور بعض اوقات چوبیس یا چھتیس گھنٹے دفتر ہی میں گزار دیتا تھا۔ ایسے میں ہمارے ڈیپارٹ منٹ میں جو کمرا مسجد کے لیے مخصوص تھا، میں وہیں سو کر اپنی نیند پوری کر لیتا۔ عموما چینل کے مالک حاجی عبد الروف مختلف ڈیپارٹ منٹس کا چکر لگایا کرتے تھے۔ کسی نے خبردار کیا، کہ انھوں نے کوئی دن تمھیں مسجد میں سوتے دیکھ لیا تو تمھاری ملازمت جائے گی۔ مجھے اس کا ڈر نہیں ہوتا تھا، کیوں کہ اتنے گھنٹے آفس میں رہنے کے بعد میرے پاس وہاں سونے کا جواز موجود تھا۔

ایک دو مہینے ایسا ہوا کہ ایچ آر نے میری کچھ دن کی غیر حاضری شو کی۔ معاملہ یوں تھا، کہ سولہ گھنٹے کے بعد مشین سے گزرا اٹینڈس کارڈ خود کار طریقے سے ’’آوٹ‘‘ شو کر دیتا تھا۔ میں سولہ گھنٹے سے زائد وقت گزار کے گھر جاتا تو میری حاضری سولہ گھنٹے ہی کی شو ہوتی، رِکارڈ کے مطابق باقی وقت میں غیر حاضر ہوتا۔ سینیئر سائن کر دیتے کہ میں غیر حاضر نہیں تھا۔ بعد میں اس کا توڑ میں نے سیکھ لیا تھا۔

اس ساری مشقت کا حاصل یہ ہے کہ آدمی کو اپنے کام میں، اپنے گھر بار کی ذمہ داریوں،  تفریح، مشاغل میں ایک توازن رکھنا چاہیے۔ گھر کا وقت گھر والوں کو دے، کام کا وقت کام کو، اور دوستوں کا وقت دوستوں کی نذر کرے۔ یہی عدم توازن تھا، کہ بعد میں جب دفتر کے چھوٹے موٹے مسائل سامنے آتے تو میں چِڑ جاتا تھا، کہ اتنی محنت بھی کرو، اُلٹا باتیں بھی سنو! جولائی میں جب میں پندرہ دن کی چھٹی پر گیا، اور میری تین دن کی تن خواہ کاٹی گئی، تو دوسری بار اگست میں میرا استعفا دینے کا شدید ردِ عمل اسی عدم توازن کی وجہ سے تھا۔ میں اپنی اوور کمٹمنٹ کی وجہ سے تھک گیا تھا۔ یہ بات مجھے اُس وقت سمجھ آتی، تو شاید میں استعفا نہ دیتا، اور آفس کو اتنا ہی وقت دیتا، جتنا کہ دینا چاہیے تھا۔

’’آغاز‘‘ شو میں اس وقت تک کرتا رہا، جب تک کِہ مجھے ’’اسپورٹس رُوم ٹی 20 لائیو‘‘ ورلڈ کپ 2009 کی کوریج کی ذمہ داریاں نہیں سونپی گئیں۔ اس کی داستان میں انھی صفحات پر لکھ چکا ہوں۔ جو نہیں لکھا وہ یہ تھا، کہ انیق احمد نے مجھے ’’آغاز‘‘ سے ہٹانے پر احتجاج کیا تھا۔ جب ٹی 20 ورلڈ کپ کا ایونٹ اختتام پزیر ہوا تو میں پندرہ دن کی چھٹی پر پنڈی چلا گیا۔ وا پسی ہوئی تو ماہ رمضان کی آمد آمد تھی، مجھے افطار ٹائم کا ایک شو تھما دیا گیا۔ ’’آغاز‘‘ مذہبی موضوعات کا پروگرام تھا، اور رمضان میں ہر روز اس کا خصوصی شو ہونا ہوتا تھا، انیق احمد نے احتجاج کیا کہ میرے پروڈیوسر کو میرے شو سے ہٹا کر دوسرا پروگرام کیوں دیا جا رہا ہے، لیکن بات بنی نہیں۔ اس دوران میں میری سیلری سے تین دن کی کٹوتی ہوئی، جس پر میں نے احتجاج کیا۔ یکم رمضان کو افطار شو کی اڈیٹنگ مکمل کرواتے سحری کا وقت ہو گیا۔ میں نے اپنے کہے کے مطابق، تین دن کی سیلری نہ آنے پر، استعفا ای میل کیا اور گھر جا کے سو گیا۔

انھی دنوں جب میں نوکری سے بیزار آ چکا تھا، اور استعفا دینے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا، انیق احمد نے مجھے سمجھانے کے لیے یہ قصہ سنایا کہ جب انھوں نے پہلی بار جیو نیٹ ورک  جوائن کیا تو انھیں مشتاق احمد یوسفی کی کال آ گئی۔ مبارک باد دینے کے بعد یوسفی صاحب نے نصحیت کی، کہ ’’یاد رکھو  تم ایک سسٹم کا حصہ بننے جا رہے ہو، سسٹم بدلنے نہیں جا رہے۔ لہذا وہاں جا کر نظام بدلنے کی کوشش مت کرنا۔‘‘ نصحیت شان دار تھی، لیکن جب انسان کچھ کر گزرنے پر مائل ہو تو اس پر کوئی نصحیت کارگر نہیں ہوتی۔

استعفا دینے کے بعد میں دیر تک سویا رہا۔ دوپہر میں میرے سیل فون کی بیل بجی۔ انیق احمد کی کال تھی۔ حیرت انگیز طور پہ یہ دوسری بار ہوا تھا، کہ جب میں استعفا دے کر آیا تو اگلے روز انیق احمد کی کال آ گئی، اور انھوں نے ایک ہی طرح کی بات کی۔ ’’میں نے سلمان اقبال سے بات کر لی ہے، اب ’’آغاز‘‘ تمھی کرو گے۔‘‘ میں چند ثانیے خاموش رہا، پہلی دفعہ کی طرح پھر بتانا پڑا، ’’انیق بھائی میں استعفا دے آیا ہوں۔‘‘

اس مرتبہ بھی میرا استعفا قبول نہیں کیا گیا۔ جون 2009 سے اے آر وائے ون ورلڈ، اے آر وائے نیوز کہلانے لگا تھا۔ عارف حسین سے اینفو ٹین منٹ کی ذمے داریاں لے کے انھیں مارکیٹنگ اینڈ سیلز تک محدود کر دیا گیا تھا۔ جرجیس سیجا عرف جے جے جو اے آر وائے ڈیجیٹل کے سی ای او تھے، آج بھی ہیں، اے آر وائے نیوز اینفو ٹینمںٹ بھی انھی کے انڈر آ گیا تھا۔ استعفے کے دوسرے تیسرے روز ایچ آر ہیڈ کی کال آئی، کہ آفس تشریف لائیے۔ میں اگلے دن ایچ آر ڈیپارٹ منٹ میں تھا۔ میں نے بتا دیا کہ ہوا کیا تھا، اور کیوں میری تین دن کی سیلری کٹی، میرا مطالبہ تھا یہ غلط ہوا تو مجھے تین دن کی تن خواہ  دی جائے۔ ایچ آر ہیڈ نے پوری تسلی سے مجھے اپنی بات کہنے دی۔ پھر کہا کہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے، کہ آپ سیلری بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں نے ترنت جواب دیا، میری سیلری سے دس ہزار کم کر دیں، مجھے  پروا نہیں، لیکن تیس دن میں سے ایک دن کی تن خواہ بھی بے وجہ کاٹیں گے، تو میں یہاں نہیں رہوں گا۔ ایچ آر ہیڈ مسکرایا۔ ’’آپ پہلے ہیں جو ایسا کہ رہے ہیں کہ اس کی سیلری کم کر دیں، یہاں تو لوگ تن خواہ بڑھوانے آتے ہیں۔‘‘ میں ایچ آر ہیڈ سے میٹنگ کر کے گھر لوٹ آیا۔ اگلے روز مجھے کال آئی کہ آپ کی شکایات جے جے تک پہنچا دی گئی ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ آپ آفس جوائن کریں، اب آپ مایا کو نہیں براہ راست جے جے کو جواب دہ ہوں گے۔

یہ انھی راتوں میں سے ایک رات جب میں بالکل نہیں سو پاتا۔ اس دن میرا روزہ نہیں تھا، میں صبح دس بجے آفس پہنچ گیا۔ میری غیر موجودی میں افطار شو کسی اور کو دے دیا گیا تھا، ’’آغاز‘‘ بھی جاری تھا، رمضان کے مہینے میں میری کوئی مصروفیت تھی نہیں۔ میں اپنی نشست پر بیٹھا وقت گزاری کر رہا تھا، کہ ایک اسسٹنٹ آیا، ’’ظفر بھائی آپ وا پس آ گئے ہیں؟ مبارک ہو۔‘‘ پتا نہیں مجھے اس کی یہ بات کیوں بری لگی۔ میں سیگرٹ پینے کے لیے اُٹھ کے باہر نکلا، اسموکنگ ایریا میں کھڑے ہو کے ایک سیگرٹ پھونکا، کچھ اور کولیگ دفتر آ رہے تھے، مسکراہٹوں، سلام دُعا کا تبادلہ ہوا۔ سیگرٹ بجھا کے میں اپنی سیٹ پر آنے کے بہ جائے بیرونی گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ اُس دن کے بعد میں کبھی  ڈی 20 سائٹ ایریا کراچی، اے آر وائے کے دفتر نہیں گیا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran