ریکوڈک میں ایک ہزار ارب ڈالر کے ذخائر ہیں ۔۔۔ 6 ارب ڈالر کے جرمانے سے آسمان نہیں گرا: افتخار چوہدری


جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں ایک ہزار ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں، 6 ارب ڈالر جرمانہ ہوا ہے۔ معاملے کی 1993 سے تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اس معاہدے میں بہت بڑی کرپشن کی گئی ہے۔ ریٹائرڈ ججز کو کسی بھی کمیشن کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ کلبھوشن کیس میں بھارت کو تینوں نکات پر ناکامی اور پاکستان کو بڑی فتح حاصل ہوئی۔ اگر ہمارے پارلیمنٹرین صادق اور امین ہوجائیں تو ہمارے ملک میں کرپشن کے کیس آدھے ہو جائیں گے۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کیس کا فیصلہ میں نے اکیلے نہیں کیا، میرے ساتھ دو اورججز بھی تھے۔ ججز سے اس قسم کی تحقیقات آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہو سکتی۔ ہمارا ہر کام آئین وقانون کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ صرف میرا نہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ اگر انہیں تحقیقات کرنی ہے تو 1993 کی نگران حکومت سے کرنی چاہیے، کیوںکہ انہوں نے ملک کو بے دردی سے لوٹا۔ اس دور کے سب معاہدے کرپشن سے بھرے پڑے ہیں۔

آج بھی قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی رپورٹ میں کہا جا رہا ہے کہ ریکوڈیک میں اب بھی ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر موجود ہیں۔ جب آپ اس کیس کو گہرائی سے چیک کریں گے تو آپ کو اور چیزیں بھی ملیں گی کہ کتنی بڑی بڑی اس میں کرپشن ہوئی۔

اس کیس کے فیصلے پر قوم کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس میں آپ ریویو بھی کر سکتے ہیں، اینٹا اگسٹا کمپنی نے خود پاکستان کو خط لکھا کہ ہم آپ سے مذاکرات کےلئے تیار ہیں، ہمارے پاس بہت ذخائر موجود ہیں، ہم پر کوئی آسمان نہیں گرا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیس وہاں جانا ہی نہیں چاہیے تھا اور نہ ہی ان کے دائرہ کار میں آتا تھا۔ قانون کے مطابق اس فیصلہ پر عمل درآمد پاکستان میں ہوگا۔ بلوچستان ہائیکورٹ کو دیکھنا ہے کہ اس آرڈر پر عمل درآمد ہو بھی سکتا ہے یا نہیں؟ ہم انہیں پیسے دے سکتے ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل  207 کے تحت میں کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوسکتا۔ میں نے ایک جج کی حیثیت سے فیصلہ دیا تھا نہ کہ افتخار چوہدری کی حیثیت سے۔ میں نے یہ فیصلہ اپنے لئے نہیں کیا تھا۔ کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انارکی پیدا ہوجائے گی۔ ایسے تو آپ کل کسی بھی جج کو کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے فلاں بندے کو پھانسی کیوں نہیں دی، کسی کمیشن کو یہ اختیارات نہیں کہ ایسی تحقیقات کرے۔ ریٹائرڈ ججز کو بھی کمیشن کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ کمیشن کو دیکھنا چاہیے کہ 1993 سے ملک کے خزانے میں لوٹ مار کیسے کی گئی ۔

انہوں نے کہا کہ سٹیل مل کو آپ 21 ارب میں بیچ رہےتھے جبکہ اس کی مالیت آج بھی بلینز آف ڈالر ہیں۔ یہ آپ کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ سٹیل مل کا سودا گھاٹے کا سودا تھا۔ اس کے خریداروں میں بھارتیوں کا بھی گٹھ جوڑ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے پارلیمنٹرین صادق اور امین ہوجائیں تو ہمارے ملک میں کرپشن کے کیس آدھے ہوجائیں گے ، اکثریت لوگ62 – 63 پر پورا نہیں اترتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں بھی یہ ثابت ہوگا کہ جج ارشد ملک نے فیصلے غیر جانبدار نہیں کئے تو یہ بائیسڈ ہوں گے۔ اگر نوازشریف کا کیس دوبارہ ریویو ہوتا ہے تو انہیں دوبارہ اپنے سوالات کے جوابات دینے ہوں گے کہ یہ پیسے کہاں سے آئے؟ انہوں نے کہا کہ حکومتی عہدیدار کوئی واضح کرپشن نہیں کرتے ان کے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔ ان کا طریقہ واردات بہت مختلف ہوتا ہے۔ پیش کئے گئے دستاویزات سے آپ انہیں کرپٹ ثابت نہیں کرسکتے۔ اس کے لئے آپ کو بڑی جامع تحقیقات کرنی ہوں گی۔ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ملک کی خاطر حکومت کو یہ کرنا چاہیے۔ اگر آپ آج یہ روکیں گے تو یہ آئندہ کے لئے رکے گا۔

افتخار چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت (ن) لیگ اور پی پی حکومت کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ اس نے لوگوں کے لئے مشکلات ہی مشکلات پیدا کیں۔ لوگ آج ایک وقت کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ میں تحریک انصاف کو تیسرا نمبر دوں گا کیونکہ اس کے دس ماہ میں لوگوں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اچھا کام کر رہے ہیں اس کے خلاف ایسی تحریک نہیں ہونی چاہیے۔ میں اسے خود جانتا ہوں۔ اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ یہ صرف اور صرف سیاست کی نذر ہو رہے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).