ابھینندن کے لئے چائے کا کپ اور کلبھوشن کی سزائے موت


چانکیہ نیتی تلے پلنے والے بھارتی حکمرا ن پاکستان کے خلاف نفرت اور دشمنی کے تخم کی آبیاری کرتے نہیں تھکتے۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کو ہر سطح پر نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتا آیا ہے۔ اگر گزشتہ پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے دوستی کے راستے ہموار کرنے کی کوشش میں رہا ہے اور اسی لئے پاکستان نے بھارت کو بھی ہمیشہ مذاکرات کی دعوت دی اور مسئلہ کشمیر سمیت باقی تمام معاملات کو صلح جوئی سے حل کرنے کا عندیہ دیا۔

لیکن بھارت اپنے وسیع رقبے اوربڑی آبادی کو ہی شاید طاقت کا منبع سمجھتے ہوئے اپنے ہمسایہ ممالک کو دبانے کی راج نیتی پر عمل پیرا ہے۔ وہ جنوبی ایشیا میں جنگ اور دہشت گردی کی آگ کو مزید بھڑکائے رکھنا چاہتا ہے اور عالمی دنیا کے سامنے پاکستان کو موردِالزام ٹھہرا کر امن کا نوبل انعام اپنے گلے میں لٹکانے کا خواب دیکھتا ہے، لیکن بھارت کے اپنے ہی شہری اس کی ریاستی دہشتگردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ بھارت اپنے ملک اور ہمسایہ ممالک میں خون کی جو ہولی کھیل رہا ہے وہ آہستہ آستہ اب ساری دنیا کو نظر آنے لگی ہے۔

سوشل میڈیا نے بھارت کے مکروہ اور سازشی چہرے سے نقاب اٹھانا شروع کر دیا ہے اور ساری دنیا دیکھتی ہے کہ بھارت اپنے ملک میں بسنے والی چھوٹی ذاتوں سمیت سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ کتنا انسانیت سوز سلوک کرتا ہے۔ کہیں موب لنچنگ کرکے مسلمانوں اور سکھوں کو مارا جاتا ہے تو کہیں گاوہتیا کے الزام میں سرِعام معصوم شہریوں کا گلا کاٹ دیا جاتا ہے۔ کشمیر میں ستر سال سے جاری ظلم وستم کوبھی اب سوشل میڈیا کی آنکھ سے بھارت چھپا نہیں سکا۔

گجرات میں کٹرہندو ذہنیت کا شکار سینکڑوں مسلمان ہوئے۔ اس کے علاوہ مغربی بنگال، تری پورہ اورآسام میں فسادات اور قتلِ عام شروع ہوا جو اب بھی وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے۔ آر ایس ایس خود مرکزی ملزموں کی جماعت ہے اور اسی سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی حکومتی جماعت بی جے پی خطرناک ملزموں کی نا صرف پشت پناہی کرتی ہے بلکہ ان کو نمایاں حکومتی عہدوں سے بھی نوازتی ہے۔ جس کی ایک حالیہ مثال سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی ہے جومالیگاؤں 2008 ء کے بم دھماکوں کی مرکزی ملزمہ ہے۔

سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو بی جے پی نے 2019 ء میں بھوپال لوک سبھا نشست سے امیدوار بنایا اور اس وقت وہ بھارتی لوک سبھا کی ممبر ہے اور اپنے ہندتوی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ اور پھر یوگی آدتیہ ناتھ جیسا لیڈر ( جس کو مودی نے 2017 ء میں اتر پردیش کا وزیر اعلی بنایا تھا ) ایک ”ہندو یوا واہنی“ نامی شدت پسند تنظیم کا سربراہ ہے جس کا خاص مقصد مسلمانوں پر تشدد اور ظلم کرنا ہے۔ یوگی کی ساری زندگی اور سیاست تشدد سے بھرپور رہی ہے اور وہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا فسادات کی سربراہی کرتا ہے۔ اقدامِ قتل اور دیگر فرقہ وارانہ فسادات میں یوگی نامزد ملزم ہے۔

انگریز سے آ زادی کے بعد پنجاب میں بسنے والی سکھ قوم بھارتی ریاست کی تشدد پرستانہ اور متعصبانہ پالیسیوں کا شکار رہی ہے۔ انہیں معاشی، سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر بری طرح پچھاڑا گیا ہے۔ 1984 ء میں سکھوں کے مقدس مقام دربار صاحب امرتسرپر اس وقت کی وزیرِاعظم اندرا گاندھی کے کہنے پر حملہ کیا گیاجس میں ہزاروں سکھوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اور پھر دو دہائیوں پر محیط آپریشن ووڈ روز اور آپریشن ریڈ روز کے تحت سکھوں کی نسل کشی جاری رکھی گئی۔

بھارتی ایجنسی را خطے میں موجود تمام ممالک میں انتشار پھیلانے کے لئے دہشتگردوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ بھارت نے اپنے اردگرد کے ممالک پر قبضہ کرنے کے خواب ہمیشہ دیکھے اور اس کے لئے اس نے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے۔ دوسرے ممالک پر قبضہ کرنے اور انتشار پھیلانے کے مشن کے تحت ہی بھارت نے سری لنکا کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔ 1976 ء میں شروع کیے گئے اس مشن میں پہلے سری لنکا میں موجود تامل نوجوانوں کو سری لنکا کی حکومت کے خلاف بھڑکایا گیا اور پھر انہی ورغلائے گئے نوجوانوں کو بھارتی تربیتی کیمپوں میں مخصوص تربیت دے کر سری لنکن آرمی کے خلاف استعمال کیا گیا اور تامل ٹائیگرز نامی علیحدگی پسند تنظیم کی تشکیل شروع کر دی گئی۔

پھر اس تنظیم کو بھاری اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ سری لنکا کے خلاف میدان میں اتاراگیا۔ بھارت کی لگائی ہوئی اس آگ میں سری لنکا سالوں جلتا رہا اور اس کی آرمی سمیت لاکھوں شہری لقمہ اجل بنتے رہے۔ اور جب یہ تنظیم بھارت کے لئے خود گلے کا پھندہ بننے لگی تو اس کو ختم کرنے کی سازش میں اسی تنظیم کے ہاتھوں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

بالکل اسی طرح مشرقی پاکستان میں حالات کو کشیدہ کرنے اور اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے بھارت نے مکتی باہنی جیسی تنظیم بنائی اور اس تنظیم کی پشت پناہی بھی کی۔ بنگلہ دیش کی دھرتی پر کھڑے ہو کر چند سال پہلے نریندر مودی نے واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا کہ پاکستان توڑنے اور بنگلہ دیش بنانے میں بھارت نے ریاستی سطح پر اپنا کردار ادا کیا۔ یہ اعتراف دراصل پاکستان دشمنی کا کھلم کھلا اظہار تھا جو اکثر بھارتی لیڈر اپنے بھاشنوں میں کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ سالوں میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں بھی بھارتی خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے میں بھی بھارت بڑی حد تک اپنا حصہ ڈالتا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی گواہی کلبھوشن یادیو عرف مبارک حسین پٹیل ہے جسے پاکستانی اداروں نے بلوچستان سے گرفتار کیا تھا۔ یادیو ایک لمبے عرصے تک پاکستان میں مختلف دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہا۔ وہ بھارتی حاضر سروس نیول افسر ہے یعنی کہ بھارتی سرکار سے تنخواہ پانے والا ایک ملازم سرکاری مشن پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تعینات تھا۔

یہ حالیہ سالوں میں ریاستی جاسوسی اور دہشت گردی کی ایک منفرد مثال ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ اپنی نوعیت کا واحد کیس ہے جس میں ایک ملک کا حاضر سروس اعلی افسر اپنے حریف ملک میں جاسوسی اور دہشت گردی کے واقعات میں براہِ راست شریک رہا۔ کلبھوشن یادیو عرف مبارک حسین پٹیل نے اپنی گرفتاری کے بعد اعترافی ویڈیو میں تمام انکشافات کیے۔ پاکستانی عدالت نے تمام شواہد کے پیش ِ نظرمسٹر یادیو کو جاسوسی اور دہشت گردی جیسے جرائم کی پاداش میں سزائے موت سنائی۔ مگر بھارت اپنی ڈھٹائی دکھاتے ہوئے اپنے حاضرسروس جاسوس کو پاکستان سے چھڑوانے کے لئے عالمی عدالتِ انصاف کی طرف لپکا۔

عالمی عدالتِ انصاف میں دونوں حریف ممالک نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔ ایک طویل اور صبر آزما کارروائی کے بعد عالمی عدالت نے بھارت کا فقط ایک موقف مانتے ہوئے یادیو کو کونسلرتک رسائی دینے کا کہا۔ مگر آتش بازی اور مٹھائیوں کی تقسیم غالباً بھارتی عوام کو یہ خوشخبری سنانے کے لئے کی جارہی تھی کہ بھارت اپنے جاسوس کا مقدمہ عالمی عدالت میں پاکستان سے جیت گیا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس سارے شور شرابے میں کوئی بھی بھارتی لیڈر، میڈیا پرسن یا دانشور یہ جواب دینے کو تیار نہیں ہے کہ کلبھوشن یادیو، مبارک حسین پٹیل کی شناخت کے ساتھ پاکستانی سرزمین پر ایک عرصہ دراز سے کیا کر رہا تھا، اس کی پاکستان میں کیا مصروفیات تھیں؟

وہ اتنا لمبا عرصہ بلوچستان میں کس خیر سگالی دورے پر تھا؟ اس سارے عمل میں چند باتیں اہم ہیں۔ ایک، بھارت نے پوری دنیا کے سامنے اپنے حاضر سروس جاسوس کو تسلیم کر کے یہ واضح کر دیا کہ وہ پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ بھارت اس کیس کو خود عالمی عدالت میں لے کر گیا لیکن اس میں فائدہ پاکستان کو ہوا کہ بھارت کا اب تک کاپوشیدہ چہرہ عالمی برادری کے سامنے بے نقاب ہو گیا۔ کیونکہ بھارت ہمیشہ پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے ایک دہشت گرد ملک کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس حقیقت کے برعکس کہ گزشتہ سالوں میں پاکستان نے دہشت گردی کے ہاتھوں بھاری جانی، مالی، معاشی، سیاسی اور سفارتی نقصانات اٹھائے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کے کیس نے پاکستان کاسفارتی سطح پر پلڑا بھاری کر دیا ہے کیونکہ اب پاکستان اپنے ملک میں بھارت کی خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں کھل کر اپنا موقف پیش کر سکتا ہے۔

پاکستان نے جنوبی ایشیا ء میں امن کی خواہش کے پیشِ نظر بھارتی ونگ کمانڈر ابھینندن کو چائے کا ایک کپ پلانے اور ہلکی پھلکی ویڈیو چِٹ چیٹ کے بعداُسے بھارت کے حوالے کر دیا تھامگرپاکستان اپنی سالمیت اور اپنے بے گناہ شہریوں کی جان ومال کو نقصان پہنچانے والے دہشت گرد اور جاسوس کو بھارت کے حوالے نہیں کر ے گا۔ قوموں کی حمیت اور غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ کوئی دشمن اپنی شناخت تبدیل کر کے چپکے سے سرحد پار کرے اور وہاں کے مکینوں کے درمیان خون کی ہولی کھیلے اور تماشا دیکھتا رہے۔ کلبھوشن یادیو عرف مبارک حسین پٹیل کی قسمت کا فیصلہ کافی حد تک ہو چکا ہے۔ اب بھارت کے لئے یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن کے لئے کیا کردار ادا کر سکتا ہے اور خصوصاً پاکستان سے اپنے معاملات کس نہج پر لے کرجانا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).