اک چُپ سو دکھ


اس میں کو ئی شک نہیں کہ صحافت سے وابستہ افراد جب فکشن کی طرف آئیں اور وہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہوں۔ تو معلومات اور موضوعات کا ایک سیلاب ان کی طرف اُمڈ آتا ہے۔ اب یہ تخلیق کا ر کی صوابدید پر ہے، وہ اس سیلاب کے آگے بند باند ہ کر اپنی مرضی کے شگاف ڈال دے اور موضوعات کا انتخاب کرے۔ بعض اوقات اخباری زبان کا بہ کثرت استعمال ادبی اور تخلیقی زبان کو نقصان بھی پہنچاتا ہے۔

ہمار ے بزرگ حمید اختر کہا کر تے تھے، میری افسانہ نگاری کو میری صحافت کھا گئی۔میں نے پوچھا کیسے؟ کہنے لگے میری افسانوں کی کتاب ”لامکاں“ شائع ہو ئی اور اس کی بہت تعریف ہو ئی مگر میں کوچہ صحافت میں غم روزگار کا بھٹکاکہ دوسری کتاب نہ لاسکا۔ میرے دوست آدم شیر کی کتاب ”اک چُپ سو دکھ“ میرے سامنے ہے، آدم شیر بھی صحافی ہے۔ ان کی تخلیقات پر اخباری زبان کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ اس صورت حال سے کیسے نپٹتے ہیں۔ میری ان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی۔ درحقیقت ان سے میرا تعارف ان کی کتاب پڑھ کر ہی ہو ا ہے۔

ان کی کتا ب پر خالد فتح محمد نے دیپاچہ لکھا کہ آدم کی زبان پختہ انداز بالغانہ اورتکنیک منفرد ہے۔ کہانی لکھنا ایک فن ہے۔ وہاں کہانی سمجھنا بھی اہم تر ہے۔ خالد صاحب اس عہد کے اہم ترین فکشن لکھنے والے ہیں۔ ان جملے آدم کے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ میں نے کتاب مطالعہ کیا، آدم کی تخلیقی صلاحیتوں میں روانی ہے۔ قاری کو گرفت میں لینے کا فن خوب جانتے ہیں۔ الفاظ کاچناؤ بروقت اور مہارت سے کرتے ہیں۔ ایک مسئلہ ہے اردو کے افسانوں میں بے جاپنجابی جملوں کا استعمال درست نہیں ہے۔

بعض اوقات چل جاتا ہے مگر ہر افسانے میں اس کی ضرورت نہیں ہو تی۔ آدم شیر نے بعض یہی ایک غلطی کی ہے۔ بطور افسانہ نگار ان کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہے۔ اپنے افسانے غیر دلچسپ کہانی کے اختتامی جملے لکھتے ہیں تو دل کو چھو لیتے ہیں۔ کہتے ہیں، میرے ابا کہتے تھے، یہ اس خاندان کی آزمائش نہیں ہوتی، بلکہ پورے معاشرے کا امتحان ہوتا ہے اور ہم اس میں فیل ہو جاتے ہیں، اس افسانے میں کمال مہارت سے معاشرتی سوچ کو عریاں کیا گیا ہے۔

سماج یا معاشرہ اگر کسی بحران زدہ خاندان کے ساتھ برا برتاؤکرتا ہے، تو یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم اخلاقی اور تہذیبی طور پر زوال پذیر ہیں۔ چمک دمک سے متاثر ہونا، اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہا ہوتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے وکیلوں کی کمی نہیں ہے جو بدعنوان لوگوں کی وکالت میں یہ کہتے ہیں کیا ہوا کھاتاہے تو لگاتا بھی ہے۔ آدم کا افسانہ ”ہیولا“ بھی بہت خوب ہے، شروع کر تے ہیں یہ کہانی ایک خرادیے کی ہے، جو رام کے بیٹے سے منسوب شہر کا باسی تھا، یہ جملہ بتاتا ہے کہ افسانہ نگار نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، تاریخ کا مطالعہ فکشن کے لیے بہت ضروری ہے۔

کہانی کا اختتامیہ دکھی کردینے والا ہے، خرادیے اور اس کی بیوی نے وینٹی لیٹر کو عجیب نظروں سے دیکھا، اس نے ایک ماں باپ کو شکست دے دی تھی۔ یہ جملے ہمارے ہسپتالوں کی حالت زار کا نوحہ بیان کرتے ہیں۔ درحقیقت وینٹی لیٹر کے اندر حکمرانوں کی بھیانک شکلیں جھانک رہی ہیں۔ جو چالیس سال اقتدار میں رہتے ہیں اور خود علاج کرانے یورپ اور امریکہ چلے جاتے ہیں۔ اور عوام کے لیے خراب وینٹی لیٹر چھوڑ دیتے ہیں۔ چھوڑیں صاحب ان کو بُرا نہ کہیں۔ کہیں جمہوریت خطرے میں نہ پڑ جائے۔ اور ان کے حمایتی خود ساختہ دانشور جمہوریت کے بھاشن نہ شروع کر دیں۔ آخر میں آدم شیر کو مبارک باد ایک کے بعد دوسری اورتیسری کتابوں کے ہم منتظر رہیں گے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ میرے جیسا ایک صحافی فکشن کی دنیا میں آگیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).