تعلیم دشمن بلوچستان؟


بلوچستان میں تعلیم کو برائے فروخت بنا دیا گیا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ نظام میں چیک اینڈ بیلنس کا فقدان رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر شخص کا ذاتی حیثیت میں اپنے سرکاری دفتر اور ادارے کا اچھے اور برے کے فیصلے از خود کرنا ہے۔ پیسے دو، پوسٹنگ کے بعد کچھ بھی کرو، آپ کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا۔ یوں لگتا ہے کہ یہاں پر کسی کو نہ خوف خدا ہے نہ خوف نظام ہے، نہ کسی کی غربت یا مجبوری کا احساس ہے، نہ اپنے ملک نہ اپنے صوبے کا خیال ہے۔

تعلیمی پسماندگی میں بدترین مثال رہنے والے بلوچستان میں، بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن نے جماعت نہم کے طلباء و طالبات جو کہ سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم ہیں، سے امتحان کے لئے رجسٹریشن کی مد میں 900 روپے فی طالب علم چارج کیے ہیں، جبکہ اگر کسی بچے نے غربت کی وجہ سے یہ رقم مقررہ تاریخ تک جمع نہیں کی تو اس کو بطور جرمانہ 1800 روپے جمع کروانے پڑے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ صرف بورڈ آفس کے پاس صرف رجسٹریشن کا عمل ہے جس کا تمام تر کام متعلقہ اسکول نے کیا ہے۔

جس میں بچے کی تصاویر لینا، بورڈ آفس کے سائیڈ سے فارم ڈاؤن لوڈ کرنا، فارم دوبارہ اپلوڈ کرنا، اس کا پرنٹ نکلوانا، طلباء کے انگوٹھے کے نشانات حاصل کرنا، اور فارم بورڈ آفس میں دوبارہ جمع کرانے کے عمل تک کی ذمہ داری متعلقہ سکول انتظامیہ پر عائد کی گئی ہے، یعنی یہاں اب محکمہ خوراک کو سبسڈی دے رہے ہیں۔ اور یوں لگتا ہے کہ حکومت اپنے کماؤ بچوں محکمہ معدنیات، مکمہ ایکسائز، محکمہ ماہی گیری، اور انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ میں آمدن سے اضافہ میں مکمل طور تو ناکام ہونے کے بعد، محکمہ تعلیم سے آمدنی پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر رہی ہے، اور محمکہ تعلیم روشنی کے بجائے کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے۔

بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بلوچستان نے سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں جماعت نہم کی داخلے کی فیس مقرر وقت پر ادائیگی کی رقم 900، جبکہ وقت گزارنے کے بعد اٹھارہ سو روپے کردی ہے۔ اصلاحات کرنے کی صلاحیت سے آپ محروم ہیں۔ لیکن اندھی سوچ کو لے کر روشنی پھیلانے والے محکمہ کو نظرانداز کررہے ہیں، اور اس کو روشنی پھیلانے کے بجائے کماؤ بچہ بنا دیا ہے۔ اب دو دن قبل اس نالائق نظام نے بلوچستان میں احتجاج کرنے والے ماسٹروں کی مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن پر، صوبے کو سالانہ 50 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا دیا ہے جبکہ دوسری جانب یہ نالائق نظام تعلیم فروخت کرکے اس کی روشنی کی کرنیں ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے محکمہ تعلیم کو مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا ہے۔ جس توجہ کا تقاضا صوبے کی تعلیمی پسماندگی کر رہا ہے۔ اس طرح کی توجہ بیلہ کے شہزادے جام کمال نے شبعہ تعلیم کو قطعی طورپر نہیں دی ہے۔ ہم نے تعلیم کو برائے فروخت بنا دیا ہے۔ جو قومیں کتاب دشمن تعلیم دشمن بنی ہیں، وہ دنیا میں نشان عبرت ہے۔ یہاں پر ہم صرف افسر ان کو مراعات دے رہے ہیں، اس کے بعد بابو پارٹی کو اخراجات کم کرنے کے بجائے بوجھ یا نظام یا پھر عوام پر ڈالا جارہا ہے۔

چیئرمین بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کو ہم نے بطور صوبہ 80 لاکھ روپے کی سرکاری گاڑی لے کر دی ہے۔ ہم ان کو دس لاکھ کی گاڑی دے کر 70 لاکھ روپے بینک میں سود پر رکھواتے، اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے نہم جماعت کی داخلہ کی مد میں سبسڈی دے سکتے ہیں۔ ہم تعلیم کے فروغ کے لیے کام کر سکتے تھے۔ لیکن ہمارے پاس نہ عقل ہے نہ سوچ ہے، نہ ہم نے اس نقل مار بورڈ آفس سے نقل کرنا سیکھا ہے۔ نہ ہی بطور صوبہ ہم دوسروں سے نقل کرنے کے قابل ہیں جو کہ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے۔

موجودہ صوبائی حکومت نے اپنے گیارہ ماہ کی حکمرانی میں اب تک کوئی قدم سرکاری سطح پر ناکام اورمفلوج نظام تعلیم میں ڈالنے کے لیے نہیں اٹھایا۔ سرکار کی ناکامی کا فائدہ تعلیم فروخت مافیا نے بھرپور اٹھایا ہے۔ ہر گلی اور محلے میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھر مار اس لئے نہیں ہے کہ لوگ خدمت کے جذبہ سے یہ سکول کھول رہے ہیں، بلکہ واضع طور پر نظر آرہا ہے کہ مالی منفعت کا پہلو، پہلی ترجیح ہے۔

ان سکولوں کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے۔ چونکہ سرکار اپنے سکولوں کو ٹھیک اور چیک نہیں کرسکتی ہے تو ایسے کوئی ادارہ ان کے نصاب کو دیکھتا ہے نہ ان کے معیار کو جانچنے کا کوئی پیمانہ ہے۔ والدین پر بھاری فیسیں ایک اضافی بوجھ ہیں، اگر سرکاری تعلیمی ادارے عوام الناس کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہیں، تو کیا کبھی کسی سطع پر اس کی وجہ جاننے کی ضرورت محسوس کی گئی؟ کہ خرابی کہاں پر ہے۔ گلی محلوں میں قائم سکولوں میں جو لوگ بطور ٹیچر خدمات سرانجام دے رہے ہیں جو سرکاری نوکری حاصل نہیں کرسکتے۔

اور پھر ان کو ایسی شرائط پر پرائیویٹ سکول بھرتی کر لیتے ہیں جو یکسر سکول مالکان کے حق میں ہیں۔ فیسوں کے علاوہ گاہے بگاہے کبھی کوئی دن اور کوئی فنکشن الگ سے منعقد کیے جاتے ہیں، جس کے لئے بچوں سے یا ان کے والدین سے الگ سے پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے سرکاری سکولوں پر عوام کے اعتماد میں اضافہ کیا جائے، آخر بجٹ کا ایک بڑا حصہ اس پر خرچ ہوتا ہے۔ ان میں تعلیمی معیار کو جانچنے کا کوئی طریقہ وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹیچر کی حاضری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف کاغذات کی حد تک نہیں، بلکہ عملی طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ جو زمین پر نظر بھی آئے۔ ایسے مستقل نظام کی ضرورت ہے جو مسلسل بہتری کے لئے کام کرئے۔ اور ساتھ حکومت اپنی ذمہ داروں کا احساس کرتے ہوئے گلی محلوں میں قائم سکولوں کے لئے بھی کوئی نظام قائم کریں۔ وہاں جس ٹیچر کی تنخواہ زیادہ ہو جائے کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے اسے ملازمت سے برخواست کر دیا جاتا ہے۔ ایسے معاملات میں انہیں کوئی فورم مہیا کیا جانا چاہیے، تاکہ وہ ملازمت کے عدم تحفظ کا شکار نہ ہوں۔ اور پرائیویٹ سکولوں میں تنخواہوں کے ریگولر سکیل متعارف کروانا ضروری ہیں، تاکہ ان اداروں کو تعلیم کے فروغ کے لئے ایک جزو لاینفک بنایا جا سکے !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).