کے ٹو پر لگی ہوئی دنیا کی نظریں


میں اور آپ جب یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو سکردو شہر سے آگے پاکستان کے پہلے گاؤں اسکولے سے قریب چھ دن کی مسافت پر کے ٹو اور براڈ پیک کے بیس کیمپ کے قریب کوہ پیمائی کی تاریخ لکھی جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش اگر اپنے کامیاب انجام کو پہنچی تو اس کی بازگشت کئی دہائیوں تک گونجتی رہے گی اور اگر یہ ناکام ہو گئی تو بھی کوہ پیمائی کی دنیا میں ہمیشہ تکریم کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ یہ کوشش بھی کیا ہے جنون اور ہمت کا ایک ہوش ربا فسانہ ہے جو پہلی بار میں ناقابل یقین سا لگتا ہے لیکن تھوڑا گہرائی میں جھانکیں تو انسانی سوچ، ہمت اور جواں ہمتی کی داد دینی پڑتی ہے

۔ تفصیل سے پہلے تھوڑی بنیادی معلومات

کرہ ارض پر اس وقت صرف چودہ پہاڑ ایسے ہیں جن کی اونچائی آٹھ ہزار میٹر سے بلند ہے۔ یہ تمام چودہ چوٹیاں ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے کا حصہ ہیں۔ ان میں سے آٹھ نیپال اور چین، پانچ پاکستان اور ایک ہندوستان میں واقع ہے۔ 1950 میں نیپال میں واقع اناپورنا آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند وہ پہلا پہاڑ تھا جس پر انسانی قدم رکھے گئے۔ اس سے قریب پچاس سال پہلے نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش ناکام ہو چکی تھی اور یوں پہلی آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹی پر پہنچنے کے لئے انسان کو نصف صدی کا عرصہ لگ گیا تاہم اگلے چودہ سالوں میں ان تمام چودہ چوٹیوں کو سر کیا جا چکا تھا۔ اٹلی کے معروف کوہ پیما میسنر وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے آٹھ ہزار میٹر بلند تمام چوٹیوں کو سر کیا۔ یہ کارنامہ 1986 میں اس وقت جا کر مکمل ہوا جب انسان کو چاند پر قدم رکھے ہوے قریب سترہ سال گزر چکے تھے۔ اس کے بعد گزشتہ تین دہائیوں میں آج تک محض انتالیس مرد اور خواتین یہ کارنامہ سر انجام دے سکے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ تعداد اطالوی کوہ پیماؤں کی ہے

ان انتالیس لوگوں میں دنیا کی چودہ چوٹیوں کو سب سے کم عرصے میں سر کرنے کا کارنامہ پولینڈ کے جرزی کوکزکا نے انجام دیا۔ وہ دوسرے کوہپیما تھے جنہوں نے میسینر کے بعد دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں کو سر کیا۔ انہوں نے یہ کارنامہ سات سال کے عرصے میں انجام دیا جو آج تک ایک ریکارڈ ہے۔ یہی دنیا کوہ پیمائی کا وہ ریکارڈ ہے جس کو توڑنے کی نیپالی نژاد برطانوی کوہ پیما نرمل پورجا عرف نمس نے ٹھانی ہے۔ وہ دنیا کی چودہ بلند ترین پہاڑوں کو کم ترین۔ وقت میں سر کرنے کا کارنامہ سات سال کی بجاے سات ماہ میں انجام دے کر تاریخ میں اپنا نام امر کر لینا چاہتے ہیں

پینتیس سالہ نرمل پورجا نیپال میں پیدا ہوئے۔ تاہم انہوں نے برطانوی بحریہ کی اسپیشل یونٹ میں سولہ سال نوکری کی اور کوہ پیمائی کے شوق میں اسے خیر آباد کیہ دیا۔ نرمل نے اپنا پہلا آٹھ ہزار اونچائی والا پہاڑ 2014 میں سر کیا۔ دو سال بعد ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی بھی سر کر لی تاہم ان کا نام کوہ پیمائی کے حوالے سے دو سال قبل اس وقت معروف ہوا جب انہوں نے کم ترین وقت میں ماؤنٹ ایورسٹ اور اسی کے قریب واقع دوسری بلند چوٹیوں کو سر کر کے گینیز بک وف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کروا لیا

کم ترین وقت میں چوٹیاں سر کرنے کے کچھ عالمی ریکارڈ بنانے کے بعد نرمل پورجا نے 2019 میں ایک ایسا ریکارڈ بنانے کا اعلان کیا جس نے دنیا کو حیران کر دیا۔ ا نہوں نے چودہ بلند ترین چوٹیوں کو صرف سات ماہ میں سر کرنے کی ٹھانی۔ نرمل نے اپنے اس مشن کو ممکن 14 / 7 کا نام دیا اور اپریل 2019 ۔ میں نیپال میں واقع انناپورنا سے اس کا آغاز کر دیا

۔ اس مشن کے تین مرحلے ہیں

مشن کے کے پہلے مرحلے میں نیپال میں واقع چھ چوٹیاں سر کی جانی تھیں۔ 23 اپریل کو نرمل پورجا نے مشن کا آغاز کیا اور اگلے دو ماہ میں ماؤنٹ ایورسٹ سمیت چھ آٹھ ہزار سے بلند چوٹیاں سر کر کے سب کو حیران کر دیا۔ پہلے مرحلے کی تفصیل یہ ہیں

Annapurna ( 8091 m، Nepal، April 23، 2019

Dhaulagiri ( 8167 m، Nepal، May 12، 2019

Kanchenjunga ( 8586 m، NepalMay 15، 2019

Everest ( 8848 m، Nepal، May 22، 2019

Lhotse ( 8516 m، Nepal، May 22، 2019

Makalu ( 8481 m، Nepal، May 24، 2019

مشن کا دوسرا مرحلہ پاکستان میں واقع پانچ آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کو سر کرنے کا ہے۔ جس کا آغاز جولائی میں نانگا پربت سے

ہوا اور یہ تا حال جاری ہے۔ گاشا بروم ایک اور دو سر کرنے کے بعد نرمل کا مشن ایک غیر معمولی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے

اب ان کے سامنے کے ٹو کا چیلنج ہے۔ اس سال کے ٹو کی چوٹی پر برف کی وجہ سے بہت سے بین الاقوامی کوہ پیما اور ٹیمیں واپس لوٹ چکی ہیں۔ تاہم نرمل پورجا نے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے ٹو کو سر کرنے کا اعلان کر کے ایک بار پھر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ نرمل کے اعلان کے مطابق وہ اس ہفتے کے آخر تک کے ٹو کی چوٹی سر کرنا چاہتے ہیں۔

۔ چاند پر اترنے کے پچاس سال بعد جولائی کے ہی مہینے میں دنیا بھر کے لوگوں کی نگاہیں اب کی بار زمین پر موجود کے ٹو پر مرکوز ہو چکی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).