غذائی عدم تحفظ اور حکمرانی کا بحران


پاکستان کی حکمرانی کے بحران کی ایک اہم کنجی غربت میں اضافہ ہے۔ یہ بحران کم ہونے کی بجائے تسلسل کے ساتھ بڑھ رہا ہے او رتمام تر حکومتی دعووں کے باوجود غربت کا بحران کم ہونے کی بجائے اور زیادہ بگاڑ کا منظر پیش کررہا ہے۔ غربت کے مختلف پہلو ہوسکتے ہیں او راس کی کئی سطح پر درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔ ایک مسئلہ غذائی عدم تحفظ کا بھی ہے۔ یہ ایک انسانی بنیادی حق ہے جو اسے زندہ رہنے کا حق فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہاں بہت سے لوگ اس بنیادی حق یعنی زندہ رہنے کے لیے جو خوراک درکار ہے اس سے بھی محروم نظر آتے ہیں۔

یہ محرومی کی سیاست محض چند علاقوں یا ایک صوبہ یا شہرو قصبہ تک محدود نہیں بلکہ ملک کے چاروں صوبوں میں غذائی عدم تحفظ کی شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے۔ غذائی قلت کے شکار میں سب سے زیادہ متاثر بچے او ربچیاں ہوتی ہے اور اور پہلے پانچ برس تک کی عمر میں پہنچنے سے پہلے ہی جو بچے او ربچیاں زندگی کی بازی ہارتے ہیں ان میں ایک بڑی وجہ عدم خوراک بھی ہے۔

غذائی قلت کے تناظر میں پاکستان کے سیاسی، سماجی او رمعاشی اعداد وشمار خوفناک کہانیاں پیش کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں سٹیٹ بینک کی سہہ ماہی رپورٹ جاری ہوئی ہے جس میں علاوہ دیگر معاملات کے ملک میں غذائی قلت کی صورتحال کا جائز ہ بھی پیش کیا گیا ہے جو ہماری بدترین حکمرانی کی کہانی کو پیش کرتا ہے۔ اس رپورٹ کے بقول ملک میں 63.01 فیصد افراد کو غذائی تحفظ حاصل ہے او رتقریبا 37 فیصد افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں جن میں 18.3 فیصد آبادی شدید خوارک کا بحران رکھتی ہے۔

صوبہ بلوچستان سب سے زیادہ غذائی قلت سے دوچار ہے جہاں تقریبا 50 فیصد آبادی خوارک کے بحران کا شکار ہے۔ جبکہ بلوچستان میں 30 فیصدافراد زیادہ کو بحران کا سامنا ہے۔ جبکہ خیبر پختونخواہ میں بھی 30 فیصد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں اور اندرون سندھ سمیت جنوبی پنجاب کا بیشتر حصہ اسی بڑے بحران سے گزررہا ہے۔

عالمی گلوبل انڈکس بھوک میں شامل 119 ممالک میں پاکستان 106 پر کھڑا ہے جو ہماری صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم غذائی قلت کے بحران میں کہاں کھڑے ہیں۔ شہروں کے مقابلے میں دہیات کی سطح پر ہماری غربت کی شرح زیادہ ہے او رتقریبا 30.07 افراد غربت کا شکار ہیں۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومتی معاشی پالیسیوں میں غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو اگلے چند برسوں یا دہائی میں پاکستان ان ملکوں میں شامل ہوگا جو غذائی قلت کے شدید بحران سے دوچار ہوگا۔

بدقسمتی سے غذائی قلت کا یہ بحران ایک ایسے ملک کو ہے جو خود کو زرعی ملک کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے او ربہت سے لوگ اس دعوے پر یقین بھی رکھتے ہیں، اعداد وشمار کے مطابق پاکستان دنیا میں گندم پیدا کرنے والا آٹھوں بڑا ملک ہے، چاول کی پیداوار میں ہم دنیا میں دسویں نمبر ہیں اور دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ ایسے میں ملک میں غذائی قلت کا بحران ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ خوارک پیدا کرنے سے زیادہ حکمرانی کے بحران او روسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے جڑا ہوا ہے۔

حکمران طبقات کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ غذائی قلت یا غربت کا یہ بحران بنیادی طو رپر سماج میں عدم مساوات اور اس کا ایک بڑا نتیجہ خط غربت میں آضافہ کا سبب بھی بنتا ہے۔ یہ جو ملک میں سیاسی او رمعاشی افراتفری ہے او راس کا ایک بڑا نتیجہ انتشار او رمحرومی کی سیاست سمیت لوگوں میں انتہا پسندی کو بھی فروغ دیتا ہے۔ طبقاتی طرز پر قائم معاشرے میں لوگوں کو یہ کہنا کہ ہم ایک قوم ہیں مشکل سوال بن جاتا ہے او رخاص طور پر جب حکمرانی کا نظام طبقاتی بنیادوں پر قائم ہو۔

سنجیدہ بات یہ ہے کہ ہم غربت میں کمی لانے یا غذائی قلت کے بحران سے درست طو ر پر نمٹنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہماری خواہش ہو کہ ہم اس بحران سے نمٹ سکیں۔ مگر مسئلہ محض خواہش کا نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ہماری سیاسی او رمعاشی حکمت عملی اور بالخصوص کمزور طبقات کے مفادات پر مبنی پالیسیوں سے جڑا ہے۔ ہماری سیاسی ترجیحات میں کمزور طبقہ کس حد تک بالادست ہے یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

یہ جو ملک میں آمیری او رغریبی میں فرق خوفناک حد تک بڑھ رہا ہے اس کی بڑی وجہ ہماری سیاسی اور معاشی حکمت عملیاں ہیں جو عملی طو ر پر غیر منصفانہ اور غیر شفاف ہیں۔ یہ پالیسیاں ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کو تقویت دیتی ہیں جبکہ کمزور طبقہ کا ایک بڑا حصہ خود ریاستی او رحکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی استحصال کا شکار ہوتا ہے۔ روپے کی قیمت میں مسلسل گرواٹ سے روپے کی قوت خرید میں آنے والی کمی کا اثر ہے۔ یہ اثر ایک جانب غربت کو بڑھارہا ہے اور دوسری طرف لوگ زندہ رہنے کے لیے بنیادی خوراک سے بھی محروم ہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو خوراک ہمیں دی جارہی ہے وہ کس حد تک شفاف ہے۔ کیونکہ خوار ک میں ملاوٹ جیسا موذی مرض بھی اس معاشرے میں موجود ہے او رہم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اگر فوری طور پر اس مسئلہ کی طرف توجہ نہ دی گئی کم خوراکی او رغذائی عدم تحفظ کا یہ مسئلہ ہماری آبادی او ربالخصوص بچوں او ربچیوں کی جسمانی ا ور ذہنی نشورنما کے لیے بڑا چیلنج بنے گا۔

وزیر اعظم عمران خان بار بار غربت کی کمی او ربالخصوص خط غربت سے نیچے رہ جانے والے افراد کی بحالی پر بہت زور دیتے ہیں۔ ان کے بقول ان کی سیاسی ترجیحات میں ایسے لوگوں کو اوپر لانا ہے جو معاشی اعتبار سے بہت نیچے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں چین سمیت مختلف ممالک کی مثالیں بھی دیتے ہیں کہ جنہوں نے اپنی پالیسیوں سے کمزور طبقات کو معاشی طور پر کھڑا کیا۔ لیکن ابھی تک ہمیں ایک برس میں عمران خان کی حکومت میں اس تناظر میں کوئی بڑی سیاسی او رمعاشی حکمت عملی دیکھنے کو نہیں ملی جو ظاہر کرے کہ حکومت درست سمت رکھتی ہے۔

اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایک مضبوط او رمربوط مقامی حکمرانی کا شفاف نظام درکار ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر مقامی سطح پر کمزور طبقات کے لیے ایک بڑی طاقت بن سکتا ہے۔ اس نظام کو عمومی طور پر د نیا کی بہتر حکمرانی کے نظام میں مقامی حکومتوں کا نظام کہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری حکمرانی کے نظام میں مقامی نظام ترجیحات کے تناظر میں بہت پیچھے کھڑا ہے۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم ملک میں ایک ایسا معاشی سازگار ماحول پیدا کریں جو سب کو او ربالخصوص کمزور طبقات کو معاشی حصول میں نئے نئے مواقع فراہم کرے۔ حکومتوں کا کام معاشی سازگار ماحول بنانا ہوتا ہے اور ایسے لوگوں پر زیادہ سرمایہ کاری کرنا ہوتا ہے جو بہت ہی غریب ہوتے ہیں اور حکومت کی توجہ کے زیادہ مستحق بھی۔ ہمیں مقامی سطح پر چھوٹی چھوٹی گھریلو انڈسٹریوں کی طرف توجہ دینی ہوگی او رعام لوگوں کو اس چھوٹی صنعت کی طرف راغب کرنے کے لیے ان کو زیادہ مواقع او رماحول فراہم کرنا ہوگا۔

حکومت شاید اب زیادہ روزگار یا نوکریاں نہ دے سکے، مگر وہ نئے او رجدید طریقوں سے روزگار کے نئے مواقع تلاش کرکے اسے عام آدمی سے جوڑ سکتی ہے۔ گھریلو سطح پر عورتوں کو چھوٹی صنعتوں کے ساتھ جوڑنا ہوگا او رعورتیں اس عمل میں شامل ہوکر اپنے لیے بھی او راپنے خاندان کے لیے بھی معاشی مواقعوں کو تلاش کرسکتی ہیں۔ وہ نوجوان لڑکے او رلڑکیاں جو پڑھ لکھ نہیں سکے ان کے لیے ہمیں معاشی تناظر میں کچھ نیا کرکے دکھانا ہوگا تاکہ یہ لوگ بھی معاشی عمل میں موثر طور پر شامل ہوسکیں۔

بنیادی طور پر پاکستان کوحکمرانی کا نظام ایک بہت بڑی سرجری درکار ہے ا و ریہ سرجری کسی پرانے اور فرسودہ روایتی طور طریقوں سے نہیں ممکن ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں اپنے پورے سیاسی، سماجی او رمعاشی نظام میں بڑی موثر اصلاحات درکار ہیں او ریہ اصلاحات اسی صورت میں ممکن ہوگی جب ہنگامی بنیادوں پر غیر معمولی اقدامات کی مدد سے کچھ کیا جائے گا۔ وگرنہ دیا رکھیں کہ غربت یا غذائی قلت کا بحران کا نتیجہ ایک کمزور سیاسی او رمعاشی نظام کی صورت میں بڑھتا ہے اور لوگوں کا سیاست سمیت جمہوریت پر اعتبار کم ہوتا ہے۔ کیونکہ لوگوں کو لگتا ہے کہ جو بھی سیاسی او رجمہوری نظام ان کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کرتا اس کی کوئی ساکھ نہیں ہوتی۔ اس لیے وزیر اعظم عمران خان کو غربت سمیت غذائی بحران کے مسئلہ پر زیادہ سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام عملی طو رپر لوگوں کو نظر بھی آنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).