ارشد ملک وڈیو : کیا کرنا چاہیے


برسوں پہلے کی بات ہے، جب طلبہ کو مختلف تقریری مقابلہ جات میں بھیجنے کے لیے تیاری کروایا کرتا تھا تو تقاریر میں رنگ بھرنے کی خاطر کچھ اشعار تراش لیا کرتا تھا۔ ایسے ہی ایک مقابلہ کے لیے یہ اشعار گھڑنے کا اتفاق ہوا:

ہوا ہے آج یہ کیا؟ سب صداقتیں چُپ ہیں!

بدلتے وقت کی، بے تاب ساعتیں چُپ ہیں!

ہے مُدعی بھی پریشان، اور منصف بھی

پڑے ہیں گُنگ کٹہرے، عدالتیں چُپ ہیں

کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ہفتے سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملِک کے پریشان کُن وضاحتی بیانات، اہلِ نون کا مضطرب واویلا اور عدالت کی بے سُدھ زنجیر ایسا ہی منظر پیش کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ اسلامی جمہوریہ میں یہ پہلا واقعہ نہیں کہ کسی منصف پر انگلی اٹھی ہو۔ پچاس کی دہائی کے مولوی تمیز الدین سے حالیہ دور کے اعلیٰ و ارفع منصفین، سب اس چکّی میں پِستے رہے ہیں۔ (چکّی میں پِسنے والا محاورہ شاید یہاں اس لیے فِٹ نہیں بیٹھتا کہ ایسی کیفیت مخصوص حالات میں مسلّط ہو جایا کرتی ہے جبکہ زیرِ نظر حضرات تو خود اس مشکل پسندی کے شوقین تھے۔) ملک کی عدالتی تاریخ میں اگر چیف جسٹس (ریٹائرڈ) مرحوم نسیم حسن شاہ، چیف جسٹس (ریٹائرڈ) عبدلحمید ڈوگر، جسٹس عبدلقیّوم اور ایسے دوسرے معتبرین کا نام آتا ہے جن پر تبصرہ کرتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے کہ کسی مضبوط پس منظر کے بغیر یوں ہی لفظوں کے بیوپار کے چکر میں بے دریغ سچ بولنے سے پرہیز ہی اچھا ہے، تو وہیں جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہ الدین جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، جسٹس سعید الزماں صدیقی اور ایسے بہت سے دوسرے منصفین کا نام لیا جا سکتا ہے جنھوں نے ہمیشہ بے لاگ انصاف کیا اور جہاں کہیں خود کو مجبور سمجھا تو سمجھوتہ کر کے وِکِٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش کرنے کے بجائے عدل کی تقدیس پر خود کو قربان کر ڈالا۔

کسی بھی معیار، کسوٹی اور مثالی نظام کی بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم تیسری دنیا کے پرلے درجے کے اُس ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں حُبّ الوطنی کا یہ عالم ہے کہ کوئی شاعرِ مشرق کی عظمت کو سلام کرتا اور کوئی انھیں ان القابات سے نوازتا ہے کہ سماجی میڈیا پر بھی ایسے کلمات استعمال کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ کوئی بابائے قوم پر انگلیاں اٹھانے لگتا ہے اور کوئی قائدِ ملّت کو لتاڑ ڈالتا ہے۔ ایک طرف مادرِ ملّت کی تقدیس کے ترانے پڑھے جاتے ہیں اور دوسری طرف ساٹھ کی دہائی کے انتخابات میں جو کچھ ان کے حوالے سے کہا گیا اُسے دوہراتے ہوئے بھی نظریں جھُک جاتی ہیں۔ ان میں سے کوئی نام بھی ہماری تاریخ کے روایتی سیاست دانوں یا حکومت پسند آمروں کا نہیں۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جنھوں نے اپنی زندگی ملک و قوم کے نام کر دی اور ہم، آزادی رائے کے مارے ہوئے لوگ جب اور جو چاہتے ہیں بکتے جاتے ہیں۔

آج کل بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جب نون لیگی نائب صدر، پہلو میں چچا کو بٹھائے ایک مبینہ ویڈیو چلاتی ہے تو بھول جاتی ہے کہ برسوں پہلے ان کہ ابّا کے حکم پر ان کے چچا نے بھی کچھ ایسا ہی کیا تھا۔ اپنے حواریوں کو اپنے باپ کی بے گناہی کا یقین دلانے کے چکر میں وہ فراموش کر دیتی ہے کہ اس کے اس اقدام سے انصاف کا وہ نظام ہی دھڑام سے ڈھیر ہو سکتا ہے جس نے ان کے والدِ گرامی قدر کو سلاخوں سے باہر لانا ہے۔

دوسری طرف حضرتِ ارشد مَلِک اپنا صاف دامن دکھانے کو میدانِ عمل میں اترتے ہیں تو پریس ریلیز میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ان کی گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا ہے ؛ بھول جاتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ضرور ہے کہ وہ دو مقدمات میں ملوث اس شخص کے طرف داروں سے ملتے رہے ہیں جسے وہ بری بھی کر چکے ہیں اور سزا بھی دے چکے ہیں۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایفیڈیویٹ جمع کرانے کی باری آتی ہے تو خود کو معصوم بلکہ مجبور ثابت کرنے کی دوڑ میں نہ جانے کس کے مشورے پر یہ بھی بتا جاتے ہیں کہ جس شخص کو خود سزا دی، اسی سے شرفِ ملاقات کے لیے رائیونڈ یاترا تک کر ڈالی۔

رہا یہ سوال کہ محترم پر دباؤ غیبی ہاتھ نے ڈالا یا سابقہ وزیرِ اعظم اور ان کی جماعت نے؟ تو اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ اگر غیبی ہاتھ اس عمل میں اتنا ہی سرگرم ہوتا تو اسے بروقت اتنا معلوم تو ہو جاتا کہ موصوف رات کی تاریکی میں کہاں کہاں کی زیارتیں کرتے پھرتے ہیں اور مسجدِ نبوی سے رائے ونڈ تک کی سیاحی میں کون کون ان کے ہم قدم رہا اور کون کون ہم نوالہ و ہم پیالا۔ چنانچہ گمان غالب ہے کہ جناب کا ایفیڈیویٹ اس حد تک سچا ہے کہ وہی لوگ انھیں مناتے رہے جو پیسے یا دھونس دھاندلی سے ایسی سر گرمیوں کی تاریخ رکھتے ہیں اور اس سلسلہ میں ثانی نہیں رکھتے۔

البتہ سابقہ وزیرِ اعظم کی دختر نیک اختر اس سارے لفڑے میں اس حد تک کامیاب ضرور ہوئی ہیں کہ معاملہ مشکوک ہو گیا ہے۔ جج صاحب خواہ غیبی ہاتھ کے دباؤ کا شکار ہوئے یا پیسے کی چمچماہٹ یا گولی کی سنسناہٹ کا؛ فیصلہ بہر حال دباؤ یا سمجھوتے کا نتیجہ ہے۔ شاید اسی لیے دونوں گھروں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس لیے از سرِ نو کار روائی تو بنتی ہے۔ تاہم درج ذیل فارمولے سے سب کو سبق سکھایا جا سکتا ہے۔ سب چُپ بھی ہو جائیں گے اور عدل کا نام بھی اونچا ہو گا۔ فارمولا یہ ہے :

(الف) العزیزیہ اور فلیگ شِپ مقدمات کی کارروائی اُس نقطہ سے شروع کی جائے جہاں سے یہ مقدمات جج بشیر احمد سے جج ارشد ملِک کے پاس منتقل ہوئے تھے۔

(ب) جج ارشد ملِک کے خلاف ضوابط کی پاس داری نہ کرنے پر مقدمہ چلایا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔

(ج) سابقہ وزیرِ اعظم کے خلاف کارروائی کی جائے کہ انھوں نے جج خریدنے یا جج کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی اور سخت سے سخت سزا دی جائے۔

ایسا کرنے سے انصاف کا بول بالا ہو گا اور سب کو کان ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).