وزیراعظم کا دورہ امریکہ


میری دانست میں پیر کے روز وزیر اعظم پاکستان کی امریکی صدر سے جو ملاقات ہونا ہے اس کے اثرات آنے والے کئی مہینوں میں فقط باہمی تعلقات تک ہی محدود نظر نہیں آئیں گے۔ افغانستان اس ملاقات کا کلیدی سبب ہے۔ ٹرمپ کی شدید خواہش ہے کہ ستمبر کے آغاز تک اسے کوئی ایسا راستہ مل جائے جس پر چلتے ہوئے وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران لوگوں کو یہ بتاسکے کہ اس نے افغانستان پر 18 سال سے مسلط جنگ سے جان چھڑائی۔ اپنی فوجوں کو اس ملک سے ’’باعزت‘‘ انداز میں واپس نکالا۔ نکسن اور ویت نام والا معاملہ نہیں ہوا۔

ٹرمپ افغانستان کے حوالے سے جس روڈ میپ(Road Map) کی تلاش میں ہے اس کے حصول کے لئے اپنے’’اداروں‘‘ سے رجوع نہیں کررہا۔ اسے شبہ ہے کہ امریکی جنرل افغانستان میں موجود رہنے کے جواز تراشتے رہتے ہیں۔اپنی وزارتِ خارجہ کے افسروں کو وہ نالائق تصور کرتا ہے۔ سی آئی اے کے تجزیوں کے بارے میں بھی سوالات اٹھاتارہتا ہے۔

اپنی ریاست کے دائمی اداروں کی سوچ اور ترجیحات کو تقریباََ رعونت بھری حقارت سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے امریکی صدر اپنی Base یعنی کٹرحامیوں کو ثابت قدم نظر آتا ہے۔انہیں خوب یاد ہے کہ وائٹ ہائوس تک پہنچنے کی مہم چلاتے ہوئے اس نے اپنے ملک کے دارالحکومت واشنگٹن کو ایک جوہڑ(Swamp) قرار دیا تھا۔اس کا اصرار رہا کہ اس شہر میں موجود حتمی فیصلہ سازی کی حامل قوتیں عام امریکی کی خواہشات وترجیحات کے بارے میں بے حسی کی حد تک بے خبر ہیں۔

نام نہاد Globalization کے دور میں امریکہ کو خواہ مخواہ کی جنگوں میں الجھائے رہتی ہیں۔ افغانستان میں ہزاروں امریکی مارے گئے۔ لاکھوں عمر بھرکے لئے معذور ہوگئے۔اربوں ڈالر ضائع کرنے کے باوجود امریکہ ’’سپرطاقت‘‘ ہوتے ہوئے بھی اس ملک میں اپنی پسند کا ’’استحکام‘‘ حاصل نہیں کرپایا۔ 18 سال تک پھیلی جنگ نے بلکہ دُنیا کو یہ پیغام دیا کہ دورِ حاضر کا طاقت ور ترین ملک ہوتے ہوئے بھی امریکہ طالبان جیسی غیر روایتی فوج یا تحریک کو شکست نہیں دے پایا۔

چونکہ امریکی ریاست کے دائمی ادارے افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے لہذا اسے اپنی Deal Making صلاحیتوں کو استعمال میں لانا ہوگا۔ امریکی عوام کو وہ یہ دکھانا چاہ رہا ہے کہ اس کی ذہانت وفطانت نے America First کی سوچ سے جڑے ہوئے افغانستان کا مسئلہ ’’حل‘‘ کردیا۔ اپنی خواہش کو بروئے کار لانے کے لئے اسے پاکستان کی اہمیت کا احساس ہوچکا ہے۔اسے یقین ہے کہ عمران خان کی حکومت میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ’’ایک پیج‘‘ پر ہے وہ ان سے بات چیت کے ذریعے افغانستان کے تناظرمیں اپنی پسند کی ڈیل چاہ رہا ہے۔

اس کے ذہن میں ممکنہ ڈیل کا ناک نقشہ کیا ہے اس کے بارے میں مجھ ایسے گھروں میں مقید کالم نگار فقط اندازے ہی لگاسکتے ہیں۔تھوڑے اعتماد کے ساتھ مستقبل کے بارے میں اپنی رائے بنانے کے لئے مگر ٹھوس حقائق تک رسائی درکار ہے اور ’’ٹھوس حقائق‘‘ تک رسائی کا ذکر کرتے ہوئے مجھ ایسے ریٹائرڈ رپورٹر کو یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھنا ہوگی کہ امریکہ کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان محض چند دن قبل تک اس خبر کی تصدیق کرنے کو بھی تیار نہیں تھی کہ پاکستانی وزیر اعظم کی امریکی صدر سے 22جولائی کے دن ملاقات طے پاچکی ہے۔

جمعہ کی رات میری چند ایسے صحافیوں سے ملاقات ہوئی جو امریکی وزارتِ خارجہ سے باقاعدہ رابطے میں رہتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو یہ خبر بھی نہیں تھی کہ پاکستانی وزیر اعظم کے وفد میں کونسے وزراء شامل ہیں۔امریکی صدر کی پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات ون آن ون ہے یا وائٹ ہائوس میں وفود کے درمیان ملاقات ہوگی۔

واشنگٹن پہنچنے کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ نے صحافیوں کو اس ضمن میں تفصیلات سے ا ٓگاہ کیا۔ ان کی بدولت ہمیں علم ہوا کہ وائٹ ہائوس کے کیبنٹ روم میں پاکستانی اور امریکی وفود کے مابین ملاقات ہوگی۔ اس کے علاوہ مذاکرات کا ایک اور دور بھی ہوگا جس میں پاکستانی وزیر اعظم اور امریکی صدر ون آن ون ملاقات کریں گے۔ اندازہ ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم اور ان کے ہمراہ گیا وفد وائٹ ہائوس میں تقریباََ تین گھنٹے گزاریں گے۔ عمران-ٹرمپ ملاقات کا دورانیہ 20 سے 30 منٹ تک کا بتایا جارہا ہے۔

ٹھوس حقائق سے قطعی بے خبری کے اس عالم میں ذاتی طورپر قیاس آرائی سے اجتناب پر مجبور ہوں۔پھکڑپن کے لئے اگرچہ بہت سامواد میسر ہے۔معاملات کی سنگینی کا ادراک مگر اس سے پرہیز کو مجبور کررہا ہے۔بہتر یہی ہے کہ عمران-ٹرمپ ملاقات ہوجائے۔ اس کے بعد امریکی میڈیا کو غور سے دیکھا اور پڑھاجائے۔ چند افراد سے Whatsapp اور ای میلز کے ذریعے رابطہ کرنا ہوگا۔ اس مشقت سے گزرنے کے بعد ہی معقول اور مناسب نظر آتے اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔

دریں اثناء اس کالم کے ذریعے ’’ڈنگ ٹپانے‘‘ کے لئے مقامی سیاست پر توجہ دیتے ہوئے چسکہ فروشی کی کوشش کرنا ہوگی۔ مثال کے طورپر یہ خبر کہ صمصام بخاری کو پنجاب کی وزارتِ اطلاعات سے ہٹادیا گیا ہے۔ٹویٹر کے ذریعے ہمیں سیاست کی باریکیاں سمجھانے کے دعوے داروں کا خیال ہے کہ اوکاڑہ کے نرم گو صمصام بخاری کو ان کا Friends to All والا طرزتکلم لے ڈوبا۔

اقبال کا دور ’’اپنے ابراہیم‘‘ کی تلاش میں تھا۔ دورِ حاضر کی تحریک انصاف کو فیاض الحسن چوہان اور ڈاکٹر شہباز گل جیسے ترجمانوں کی ضرورت ہے جو انگریزی زبان والے In your Face انداز میں سیاسی مخالفین کے پرخچے اڑاسکیں۔ ٹی وی سکرینوں پر رونق لگائیں۔ ٹرمپ کی طرح کوئی ٹویٹ لکھیں تو واہ واہ ہوجائے۔

تحریک انصاف کے حامیوں میں ذاتی طورپر ’’نفیس‘‘ اور ’’مہذب‘‘ شمار ہوتے افراد بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ذاتی محفلوں میں وہ ’’آوازیں کسنے‘‘ والے ’’ترجمانوں‘‘ کے اندازِ سخن کے بارے میں پریشانی کا اظہار کرتے ہیں۔ایسے نیک طینت لوگ ابھی تک سوشل میڈیا کے محتاج ہوئے سیاسی منظرنامے کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انہیں خبر نہیں کہ امریکی صدر کی طرح پاکستانی وزیر اعظم بھی اپنے سمارٹ فون پر وائرل ہوئی باتوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔تحریک انصاف کے خلاف پھیلی باتوں کا فوری اور بہت شدت سے تدارک کے خواہاں ہیں۔

صمصام بخاری جیسے وضع دار افراد کی اس ماحول میں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ اقدار بھی بدل جاتی ہیں۔دورِ حاضر ’’تُوں۔تڑاخ‘‘ کا زمانہ ہے۔اس قابل نہیں تو کونے میں بیٹھ کر دہی کھائیں۔ اپنے ’’حلقوں‘‘ میں وقت گزاریں۔ بیوی اور بچوں کے ساتھ گفتگو کریں۔انہیں چھٹیاں گزارنے اپنے ہمراہ تفریحی مقامات پر لے جائیں۔

حکومتیں Digital Era سے قبل کے زمانے میں اپنے بارے میں Feel Good Factor پھیلایا کرتی تھیں۔مثال کے طورپر شہباز شریف خود کو ’’خادمِ اعلیٰ‘‘ کہلاتے ہوئے اوور اور انڈر پاسز ،ہائی ویز،میٹروبسیں اور بجلی پیدا کرنے والے ’’میگاپراجیکٹس‘‘ کی تشہیر پر توجہ دیا کرتے تھے۔ عمران حکومت کا دعویٰ ہے کہ ا سے خزانہ خالی ملا۔ میگاپراجیکٹس کے لشکارے دکھانے والے وسائل اس کے پاس موجود نہیں۔

’’پیسہ لٹانے‘‘ کی سکت سے محروم حکومت اپنے حامیوں کو فی الوقت یہ سمجھاتے ہوئے ہی مطمئن رکھ سکتی ہے کہ وہ ماضی کے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو بخشنے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔ انہیں ’’عبرت کے نشان‘‘ بنارہی ہے۔’’عبرت کے نشان‘‘ بنانے والے بیانیے کو فروغ دینے کے لئے ’’منہ پھٹ‘‘ ترجمانوں کی ضرورت ہے۔تحریک انصاف اس ضمن میں ڈھونڈنے نکلے تو ایک نہیں ہزار مل جاتے ہیں۔ان کے طرزِ سخن سے جی بہلائیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).