پاک افغان تعلقات میں امن کا نقطہ نظر


پاکستان اور افغانستان دونوں کا شمار دنیا کی تیسری ممالک میں ہوتی ہیں، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ قومی سوچ اس ملک کے درجے کی پرکھ کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کئی برس گزرنے کے باوجود ترقی کی لکیر کو نہ چھوپانے کا سببڈھونڈناہمارے لئے مشکل نہیں ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی گھتی اس وقت سے الجھائی گئی جس وقت دونوں دنیا کے نقشے پر الگ الگ ملک کی حیثیت سے قائم ہوئے تھے۔ پھر گتھی الجھتی رہی اور دونوں ممالک کو شاید یہ بھی باور کرایا گیا کہ دونوں کی جیت ایک ساتھ کسی بھی مرحلے پر نہیں ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے تمام قربتیں چھوڑ کر نئے تعلقات قائم کرنے کے لئے لگ گئے۔

دونوں ممالک کے درمیان افواہوں اور عدم اطمینان کی کیفیت رہی، ان اسباب میں ایک 2600 کلومیٹر کی ڈیورنڈ لائن بھی ہے جو اپنی ایک الگ داستان رکھتی ہے۔ افغانستان میں سیاسی سطح پر موجود خلاء کی وجہ سے کئی ممالک نے وقتاً فوقتاً مختلف اشکال میں اپنی پیش قدمی کی ہے، اور افغانستان کو اپنے مفادات کا مرکز بنالیا جس کی اردو میں یوں مثال دی جاتی ہے کہ جہاں گندا پانی ہوتا ہے وہاں پر مچھر آتے ہی ہیں۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل بھی یہی افغانستان رشیا اور برطانیہ کے درمیان مفادات کے جنگ میں پس رہا تھا بالآخر 1907 میں اس میدان میں امن کے پروانے پر دستخط کردیا گیا۔

پاکستان اور افغانستان جدید ترین اصطلاحات کے مطابق بھی ایک خطے میں شمار ہوتی ہیں کیونکہ جہاں پر ثقافت تاریخی، معاشی اور لسانی مشترکات ہیں وہی پر دونوں ممالک کو مستقبل میں مشترکہ خطرہ بھی لاحق ہے جو کہ دہشتگردی ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سردجنگ کا سما رہا ہے، جس کی بنیاد پر افغانستان پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کا قرب حاصل کرتاہوا نظر آیا۔ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو ہمیشہ سے مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا رہا جس کی وجہ یہی تھی کہ پاکستان نے افغانستان میں طالبان گروپ کی حمایت کی تھی۔

جس دور میں پاکستان افغانستان کی حمایت کرنے پر اترا تھا اسی وقت تمام عالمی طاقتوں نے مقامی سطح پر اپنے کارندے یا سہولت کار بنائے ہوئے تھے جس کی بنیاد پر یقینا پاکستان کو بھی ایک گروپ کی حمایت لازمی تھی۔ اسی بنیاد پر جب بھی پاک افغان تعلقات یا پھر افغانستان میں امن کے معاملے میں پاکستان کے کردار کی بات آگئی تو طالبان نے ہمیشہ پاکستان کے کردار کا اعتراف کیا اور سراہا بھی۔

افغانستان نائن الیون کے بعد سے اب تک سنبھلتا نظر نہیں آیا، اسی بنیاد پر افغانستان میں متعدد افغان افغان معاہدے ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں کچھ قوتوں کی بنیاد پر امن کے مرحلے میں کردار اہم ہوتا گیا کیونکہ متعدد گروہوں نے اس کی ثالثی منظور کرلی۔ چند ماہ قبل افغانستان کے صدر کو پاکستان کا دورہ کرانے میں پاکستانیپشتون رہنماؤں کا اہم کردا ر تھا جس کی بنیاد پر پوری افغان قوم نے پہلی مرتبہ پاکستان کے کردار کا اعتراف کرلیا۔ پاکستان اس وقت سالانہ کم از کم 2 ہزار افغان طلباء و طالبات کو فل سکالرشپ میں جدید تعلیم فراہم کررہا ہے دلچسپ طور پر یہ تعداد دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے، جبکہ موجودہ حکومت نے اس تعداد کو مزید بڑھانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

اس وقت پاکستان کا بہتر اور روشن مستقبل بھی افغانستان کے امن کے ساتھ وابستہ ہے اور دونوں ممالک آپس میں لازم و ملزوم ہیں، دونوں نے ایک ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ اب تک افغانستان میں امن کے حوالے سے پانچ معاہدے ہوچکے ہیں جن میں پشاور معاہدہ، بون معاہدہ، جنیوا معاہدہ، دوحہ معاہدہ اور مکہ معاہدہ شامل ہے جس کے بعد آخر میں مزید تخریب روکنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے بالخصوص نہتے شہریوں پر کسی بھی قسم کا حملہ نہ کرنے کا اعلان ہوچکا ہے، جس کے بعد امن کی تمنا کرنے والوں کے چہرے دوبارہ کھل اٹھے ہیں۔

میڈیا اینڈ ریسرچ سنٹر اسلام آباد اور میڈیوتھیک کابل کے زیر اہتمام پاک افغان سیاست و تاریخ کے عنوان سے سات روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمینار کے دو دن پاکستان جبکہ پانچ دن افغانستان میں منعقد کیے گئے۔ پاکستان میں منعقد کیے گئے سیمینار میں ماہرین تعلیم، پاک افغان امور کے ماہرین و دیگر نے شرکاء کو اپنے خیالات سے آگاہ کیا۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے چیئرمین ڈاکٹر عدنان سرور نے پاک افغان مشترکہ مفادات، خطرات اور مواقعوں پر لیکچر دیا۔

اخبارخیبر اسلام آباد کے گروپ ایڈیٹر حسن خان نے افغانستان میں امن و امان کے پائیداری میں پاکستان کے کردار پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جبکہ قائد اعظم یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر سعدیہ سلیمان نے افغانستان کے تناظر میں علاقائی انضمام پر پریزینٹیشن دی۔ دوسرے روز قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈین ڈاکٹر وقار علی شاہ نے سماجی، تاریخی، ثقافتی ڈھانچے اور افغانستان کے سیاسی اداروں پر لیکچر دیا۔ پاک آسٹریا انسٹیٹیوٹ آف اپلائیڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نصیر علی خان نے افغانستان کی معیشت اور تجارت پر پر مغز خطاب کیا جبکہ ہائیر ایجوکیشن کے عہدیدار فرمان نے تعلیمی میدان میں پاکستان کی جانب سے افغان طلباء و طالبات کے لئے فراہم کیے جانے والے سہولیات پر روشنی ڈالی۔

اس سیمینار میں سنو پاکستان ایف ایم کے پروڈیوسر خالد خان، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں ایم ایس کی طالبہ اور فری لانس صحافی رابعہ بگٹی، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ایم ایس سکالر اور فری لانس صحافی وقاص سلیم، 92 نیوزکے پروڈیوسر حماد حسن چیمہ، بول نیوز کی کوئٹہ سے رپورٹر عابدہ بلوچ، ہیرالڈ میگزین کوئٹہ کے کوآرڈینیٹر فتح اللہ کاسی، پبلک نیوز کی پروڈیوسر انعم ملک، ریڈیو پاکستان کی ایڈیٹراور پاکستان آبزرور کی نمائندہ صوفیہ صدیقی، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ٹرینر صنوبر شورو، مالاکنڈ ڈویژن سے جی این این کے نمائندے شہزاد، ایسوسی ایٹڈپریس آف پاکستان کی حنادرانی، اے وی ٹی خیبر کی رپورٹر اور اینکرشائستہ حکیم، قائد اعظم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے آفتاب شاہ، سوات سے عامر، جبکہ گلگت بلتستان سے فری لانسر شاہد ندیم اور روزنامہ اوصاف کے فہیم اختر نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا دوسرا حصہ افغانستان میں منعقد ہوا جس میں پہلے حصے میں اکثر شرکاء بھی موجود تھے۔

افغانستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہے اور پر امن افغانستان ترقی یافتہ پاکستان کی بھی ضمانت ہے۔ طویل تاریخی ادوار سے گزرنے کے بعد اب جاکر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سردمہری کی برف پگھل گئی ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کے پاس اس وقت مستقبل کے حوالے سے صرف امن کا نقطہ نظر ہے، جس کے لئے دونوں ممالک کی جانب سے پالیسی، بناوٹ اور دکھاوا ایک ہی ہونا چاہیے۔ امریکہ کے انخلاء کے مرحلے کے ساتھ ہی ایک خلاء دوبارہ پیدا ہوسکتا ہے جو کہ صرف پاکستان اور افغانستان کے مابین اچھے، دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کی بنیاد پر ہی پر ہوسکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).