مہاتیر کے دیس میں (قسط 2 )


ملائشین یونیورسٹی میں ہونے والی اس ورکشاپ کے تین سیشن تھے۔ ایک سیشن میں جرمنی سے آئے ڈاکٹر اولیور نے تحقیقی مضامین لکھنے، انہیں ایڈٹ کرنے اور کانفرنسز کے انعقاد، وغیرہ کے حوالے سے طویل لیکچر دیا۔ زندگی میں شاید پہلی بار مجھے کسی پروفیسر کو مسلسل دو گھنٹے تک سننا اچھا لگا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ شعبہ تعلیم میں آنے سے پہلے ڈاکٹر اولیور صحافی ہوا کرتے تھے اور سفارتکار بھی۔ ان کا صحافتی اور سفارتی تجربہ ان کی گفتگو سے عیاں تھا۔

جامعات کی عالمی درجہ بندی میری دلچسپی کا موضوع ہے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ جب درجہ بندی ایک کمرشل معاملہ ہے۔ اس کا طریق کار (methodology) بھی تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ اس کے باوجود یہ اس قدر اہم کیوں ہے؟ ڈاکٹر اولیور نے تصدیق کی کہ یہ واقعتا ایک تجارتی معاملہ بن چکا ہے اور اس کی جانبداری مشکوک سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے ممالک عالمی درجہ بندی کی پرواہ نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر میرا ملک جرمنی اس دوڑ میں شامل ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

جرمنی میں ہماری توجہ نظام تعلیم کو جدید عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنے پر مرکو ز رہتی ہے۔ ہمیں ہرگز پرواہ نہیں کہ ہماری یونیورسٹیاں کسی درجہ بندی میں آتی ہیں یا نہیں۔ میں نے کہا کہ اس بے نیازی کے باوجود جرمنی کی پینتالیس ( 45 ) جامعات QS ranking 2019 کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر اولیور نے کندھے اچکائے اور کہا۔ who cares ( اس کی پرواہ کسے ہے ) ۔

چائے کے وقفے میں، ڈاکٹر لطیفہ اور ڈاکٹر نکول سے ملائشیا کے نظام تعلیم کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی۔ معلوم یہ ہوا کہ وہاں بھی استاد کی ترقی تحقیقی مضامین لکھنے سے مشروط ہے۔ وہاں بھی یہ معاملہ زیر بحث رہتا ہے کہ تحقیقی سرگرمیوں کی وجہ سے استاد کی توجہ طالب علموں پر کم ہوتی جا رہی ہے۔ وہاں بھی درجہ بندی کی ظالم دوڑ میں شریک رہنے کی خواہش، اساتذہ کو سخت دباؤ میں رکھتی ہے۔ تاہم تحقیقی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ، فارغ التحصیل طالب علموں کی شرح روزگار (employment rate) کو کسی تعلیمی ادارے کی اصل کامیابی سمجھا جاتا ہے۔

اگلی صبح کانفرنس کا پہلا روز تھا۔ کلیدی تقریر (Keynote speech) ڈیجیٹل میڈیا کے متعلق تھی۔ وہی باتیں جو ہم پاکستان میں بھی اکثر وبیشتر سنتے اور دہراتے ہیں۔ کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسان روبوٹ بن کر رہ گیا ہے۔ ایک مشین کی طرح زندگی گزارتا ہے۔ اپنے قریبی رشتوں سے دن بدن دور ہوتا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال بچوں کو نفسیاتی اور جسمانی طور پر متاثر کر رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پتہ یہ چلا کہ جدید ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی پہلو باہر کی دنیا میں بھی اسی طرح زیر بحث ہیں جیسے ہمارے ہاں۔

ایک خصوصی لیکچر مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) پر تھا۔ یہ ٹیکنالوجی کا جدید تصور ہے۔ اس کے مطابق مستقبل میں انسانوں کی جگہ روبوٹ سنبھال لیں گے اور مختلف شعبوں میں کام کرتے نظر آئیں گے۔ ایک امریکی پروفیسر نے ”آرٹیفشل انٹیلی جنس اور میڈیا“ کے موضوع پر طویل تقریر کی۔ لب لباب ان کی گفتگو کا یہ تھا کہ آنے والے برسوں میں میڈیا انڈسٹری میں اصل صحافیوں کی جگہ مشینی صحافیوں (Robot journalists) کا راج ہو گا۔

روبوٹ ہی اخبارات کے لئے خبریں بنائیں گے اورٹیلی ویژن پر پروگرام کیا کریں گے۔ انسانوں کا عمل دخل بتدریج کم ہوتا جائے گا۔ اس خطاب کے دوران ہال میں انتہائی خاموشی تھی۔ حاضرین مبہوت ہو کر روبوٹ کے ممکنہ کمالات سن رہے تھے۔ لیکن مجھے ان پروفیسر کی باتیں انتہائی غیر دلچسپ اور بیزار کن لگیں۔ بھلا اس میں کیا خاص بات ہے کہ مستقبل میں میڈیاپر مشینی صحافی کام کیا کریں گے۔ یہ بھی کوئی کما ل کی بات نہیں کہ چین نے دنیا کا پہلا ”روبوٹ ٹی وی اینکر“ متعارف کروا یا ہے۔ جو دیکھنے میں تو انسان لگتا ہے۔ مگر اصل میں ایک مشین ( یعنی روبوٹ) ہے۔

میں نے سوچا کہ پاکستان میں ہم جدید ٹیکنالوجی کے بغیر بھی یہ کام بحسن و خوبی کر رہے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے نیوز چینلوں پر درجنوں روبوٹ صحافی اور تجزیہ کار موجود ہیں۔ جنہیں لکھے ہوئے پرچے ملتے ہیں اور وہ ٹی۔ وی پر بیٹھ کر ایک مشینی انداز میں حرف بہ حرف ان پرچوں کو پڑھ کر سنا تے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جنہیں با قاعدگی سے طوطے مینا کی کہانیاں فراہم ہوتی ہیں۔ اوروہ اپنے نام اور تصویر کے ساتھ ان کہانیوں کو اخبارات کے ادارتی صفحات پر چھپوا تے ہیں۔

وہ بھی ہیں جنہیں شواہد کے نام پر جھوٹ سچ پر مبنی کاغذات کے پلندے مہیا ( فیڈ) کیے جاتے ہیں۔ جنہیں وہ تحقیقاتی خبر (Investigative report) کے نام پر اخبار میں چھپوا تے ہیں یا ٹی۔ وی پروگرام میں انکشاف کا نام دے کر اگل ڈالتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ لوگ اپنے میڈیا میں مشینی صحافی (robot journalists) متعارف کروانے کے لئے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ جبکہ ہم اپنے روبوٹ صحافیوں سے اس قدر عاجز آ چکے ہیں کہ نیوز چینل دیکھنے سے دل اچاٹ ہواجاتا ہے۔ اس سے کہیں بہتر یہ لگتا ہے کہ چند گھنٹے کارٹون نیٹ ورک یا پھر Animal planet دیکھ لیا جائے، جہاں کم ازکم معیاری تفریح اور مستند معلومات تو دستیاب ہوتی ہیں۔

اس دن میری ملاقات امریکی پروفیسرڈاکٹر جین سے ہوئی۔ ڈاکٹر جین، کانفرنس میں میڈیا سنسرشپ کے حوالے سے مقالہ پڑھنے والی تھیں۔ کہنے لگیں کہ مجھے یہ جاننے میں نہایت دلچسپی رہتی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں آزادی اظہار رائے کی کیا صورتحال ہے۔ اور ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں نا مطلوب معلومات کا سیلاب کیسے روکا جاتا ہے۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں انہیں پاکستان میں آزادی صحافت کے حالات سے متعلق آگاہ کروں۔ میں کیا بتاتی کہ ہمارے ملک میں آئین کا آرٹیکل 19 (جو آزادی اظہار رائے سے متعلق ہے ) کن مشکل حالات سے دوچار ہے۔

کس طرح سرکش صحافیوں کی زبان بندی ہو رہی ہے اور انہیں نوکریوں سے نکلوایا جا رہا ہے۔ کس طرح اچانک ٹی۔ وی پروگراموں کو روک دیا جاتا ہے۔ کس طرح راتوں رات ٹی۔ وی چینلوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق اپنے گندے کپڑے (dirty lenin) ایک امریکی کے سامنے دھونا مجھے گوارا نہیں تھا۔ لہذا میں نے الٹا ان سے سوال کر ڈالاکہ آپ کا پاکستانی میڈیا کے بارے میں کیا تاثر ہے؟ ڈاکٹر جین نے کہا کہ پاکستان ایک قدامت پرست اسلامی ملک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستانی میڈیا میں سخت سنسر شپ نافذ ہو گی۔ خاص طور پر مغربی نظریات و افکار کو روکنے کے لئے بھرپور کوشش کی جاتی ہو گی۔

میں نے سوچا کہ ہمیں بھلا مغربی افکار کی روک تھام سے کیا غرض۔ ہمارا زور باز و تو جمہوری اور آئینی افکار کی بندش پر صرف ہوتا ہے۔ بہرحال میں نے ڈاکٹر جین کو بتایا کہ پاکستانی میڈیا بہت آزاد ہے۔ اور یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ہم مغربی مواد (western contents) پر پابندی لگانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔

عام طور پر ہم اپنے میڈیا پر صرف دو طرح کا مواد روکتے ہیں۔ ایک تو وہ جو ہماری مذہبی تعلیمات اور عقائد سے متصادم ہوتا ہے۔ خاص طور پر گستاخانہ مواد (blaspemous material) ۔ بطور مسلمان ہم اس بارے میں بے حد حساس ہیں۔ اسلامی ملک ہونے ہی کی وجہ سے ہم فحش مواد (pornographic contents) بھی ناپسند کرتے ہیں اور اس پر پابندی لگاتے ہیں۔ ڈاکٹر جین اپنی چھوٹی سی ڈائری میں یہ باتیں نوٹ کرنے لگیں۔ جب میں امریکی پروفیسر کو یہ بھاشن دے رہی تھی تب میرا ذہن 2015 میں جاری ہونے والی گوگل کی ایک رپورٹ کی طرف چلا گیا۔

اس میں ان ممالک کی درجہ بندی کی گئی تھی جن میں سب سے زیادہ فحش مواد تلاش (search) کیا جاتا ہے۔ فہرست کے مطابق دنیا کے پہلے آٹھ فحش مواد کے متلاشی (porn۔ searching) ممالک میں چھ مسلمان ملک شامل تھے۔ جبکہ ہمارا ملک پاکستان سر فہرست تھا۔ یعنی دنیا بھر کے ممالک میں پہلے درجے پر کھڑا تھا۔ (جاری ہے )

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).