آپ کا سامان، موم جامے کی نفیس پیکنگ اور صرف پچاس روہے میں


یہ ہے نیا پاکستان۔ مسافروں کی سہولت کے لئے صرف پچاس روپے فی بیگ لازمی پلاسٹک ریپنگ کی سہولت دستیاب ہے۔ پرانے پاکستان میں یہ سہولت تھی ہی نہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کے غیر ضروری کمنٹس کی وجہ سے لازمی ریپنگ کی شرط ختم ہونے کے امکانات ہیں مگر ارباب اختیار سے گُزارش ہے کہ عوام کے وسیع تر مفاد میں اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے، یہ لازمی شرط برقرار ہی رکھی جائے اور یہ سہولت ریلوے سٹیشن، بس اڈوں اور تمام چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں بھی مہیا کی جائے۔ گھروں پر بھی چھاپے مارے جائیں، اگر کسی گھر سے بغیر ریپ شدہ بیگ مل جائیں تو بھاری جرمانہ کیا جائے۔ جو قوم اتنی سستی لازمی سہولت سے فائدہ نہ اُٹھا سکے اُس کو جرمانہ ہی کیا جانا چاہیے۔

اگرچہ نوٹیفیکیشن میں اس بات کی وضاحت موجود نہیں ہے کہ ائرپورٹ پہ یہ تکلف کیوں کیا جا رہا ہے مگر ہمارے دوست مرزا بتا رہے تھے کہ یہ لازمی سروس موجودہ حکومت کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی پالیسی کا حصہ ہے اور اس سے روزگار کے بھی مواقع پیدا ہوں گے۔ پوچھا کہ صارف کو کیا فائدہ ہو گا۔ کہا کہ صارف کو ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ وہ نفاست کے موم کی ایک شیٹ اپنے سامان پر چڑھتے ہوئے دیکھ سکے گا۔ مزید یہ کہ اس کے منجملہ مقاصد میں مسافروں کے سامان کی حفاظت بھی شامل ہے۔

وہ بتا رہے تھے کہ اس سے پہلے سامان کی حفاظت کی ذمہ داری متعلقہ ائرلائنز پر ہوتی تھی۔ چونکہ ائرلائنز کے ذمے اور بھی بہت کام ہوتے ہیں مثلاً مسافروں کی تربیت، زبان دراز مسافروں کی پٹائی، بار بار جہاز کے عملے کو کام کے لئے بلانے والوں کی سرزنش اور بوقت ضرورت کسی مسافر کو زبردستی جہاز سے گھسیٹ کے اتارنا وغیرہ، لہٰذا پچاس روپے کی قلیل رقم کے عوض یہ کام ایک پرائیویٹ کمپنی کے ذمے لگا دیا گیا ہے۔

اب مسافر اور ائرلائنز سُکھ کا سانس لے سکتے ہیں۔ یہ کام ایک ایسی پرائیویٹ کمپنی کے ذمے لگایا گیا ہے کہ جس کے ایک سی ای او بھی ہیں اور بہت ہی تجربہ کار۔ وہ موافق اور غیر موافق دونوں طرح کے حالات میں میڈیا پر دفاعی تجزیہ کاری کر چکے ہیں اور دفاعی تجزیہ کاری کے ساتھ ساتھ غیر دفاعی سیاسی تجزیہ کاری میں بھی شہرہ رکھتے ہیں۔

مرزا بتا رہے تھے کہ اس کمپنی کو یہ کام دینے کا فیصلہ مکمل طور پر میرٹ پر کیا گیا ہے۔ جبکہ ہمارے خیال میں پچاس روپے کی قلیل رقم پر کسی کمپنی کا اس پیچیدہ کام کے لئے تیار ہو جانا ہی اُس کا میرٹ ہے۔ البتہ مرزا اس کو نئے پاکستان کی برکتیں بتاتے ہیں۔ ہمیں بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ پرانے پاکستان میں یہی کام ہزار روپے فی بیگ بھی کرنے کو کوئی تیار نہ ہوتا۔

عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ سہولت صرف ائرپورٹس پر مہیا کرنے سے عوام کی اکثریت کی حق تلفی ہوئی ہے۔ عوام کی بہت تھوڑی تعداد جہازوں پر سفر کرتی ہے، زیادہ لوگ بسوں، ویگنوں، ریل گاڑیوں اور رکشوں وغیرہ سے سفر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو نظر انداز کر دینا زیادتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کمپنی کے سی ای او صاحب سے درخواست کرے کہ وہ یہ لازمی سہولت ریلوے سٹیشن، بس اڈوں اور بازاروں وغیرہ میں بھی شروع کریں اور بے شک پچاس روپے کی بجائے سو پانچ سو روپے لے لیں۔ اس سے سرمایہ کاری کو مزید فروغ ملے گا اور ایک کروڑ نوکریوں کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جائے گا۔

عوام کو بھی مشورہ ہے کہ وہ اپنا سامان ہر صورت ریپ کرائیں۔ چاہے انہیں کہیں سفر کرنا ہو یا نہیں۔ حکومت نے آپ کی سہولت کے لئے، آج کل جگہ جگہ ائر پورٹس کھولے ہوئے ہیں جہاں پہلے ہی عمدہ روزگار اور سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ جب تک کمپنی یہ سہولت دوسری جگہوں پر شروع نہیں کرتی اُس وقت تک آپ اپنا سامان کسی بھی نزدیکی ائرپورٹ پر لے جا کر ریپ کروا سکتے ہیں۔ ریپنگ کے بعد ائرلائنز کے کاؤنٹر کی طرف جانے کی بجائے واپس گھر تشریف لے آئیں اور اطمینان کی نیند سو جائیں۔ اب آپ کا سامان محفوظ ریپنگ میں ہے۔

نوٹیفیکیشن اس بارے میں خاموش ہے کہ کمپنی ہوم ڈیلیوری کی سہولت بھی مہیا کر رہی ہے یا نہیں۔ ویسے آج کل کا کوئی کاروبار ہم ڈیلیوری کی سہولت کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔ پچھلے دنوں، ٹھیکے پہ سیاسی مخالفین کی پھینٹی لگانے والی ایک کمپنی نے بھی ہوم ڈلیوری سروس شروع کی ہے۔ وہ آپ کے سیاسی مخالف کو آپ کی طرف سے اُس کے گھر جا کر پھینٹی لگا آتے ہیں۔ کمپنی کے ایک مینیجر تو زیادہ کاروباری ذہن کے نکلے۔ وہ پھینٹی کھانے والی پارٹی سے پھینٹی لگوانے والی پارٹی کو جوابی پھینٹی لگانے کے لئے ایڈوانس بھی ساتھ پکڑ لیتے ہیں اور ساتھ ہی ایک نئی پارٹی کو مفت پھینٹی لگانے کی آفر بھی دے دیتے ہیں۔

ویسے بھی حکومت سیاسی لیڈروں کی گاڑیوں سے منشیات نکلنے کے واقعات سے تنگ آ چکی ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ سی ای او صاحب ہوم ڈیلیوری سروس اسی پھینٹی لگانے والی کمپنی کو ہی دے دیں۔ جو گاڑیوں میں رکھے جانے سامان ہر قسم کی پہلے ریپنگ کرے، پھر اپنی کمپنی کی مہر لگائے اور ایک سند بھی جاری کرے کہ اس سامان میں کس طرح کی ممنوعہ اشیا اور کتنی شامل ہیں۔ اس طرح کی ہوم ڈیلیوری ریپنگ سروس شروع کرنے سے سیاسی لیڈروں کی گاڑیوں سے منشیات نکلنے کے بعد پیدا ہونے والے بے جا بحث مباحثے سے بچا جا سکتا ہے۔ ویسے ریپنگ کی ہوم سروس شروع کرنے سے ائرپورٹ پر رش بھی کم ہو جائے گا، لوگوں کو لائنوں میں کھڑا نہیں ہونا پڑے گا اور گھر کے کچھ ایسے سامان کی بھی ریپنگ کروائی جا سکے گی کہ جو بوجہ شرمندگی ائرپورٹ پر نہیں لے جایا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).