پِچھل پیری، میم صاحب اور پپو میراثی


دن بارہ بجے کا وقت تھا جب برکت پِچھل پیری کے روپ میں بازار پہنچا تھا۔ ہجوم کے درمیان اس کی خاموشی کسی احساس گناہ کی خبر دے رہی تھی۔ اعتراف کی صورت میں لمبے بالوں سے پسینہ نُچڑتا ہوا پاؤں پر گرنے لگا۔ جب خفت گلا دبانے لگی تو اُس نے چادر پکڑ کر اُلٹی طرف موڑنا چاہامگر کمپنی بہادر کی گرفت سے آزادی مشکل تھی۔ منت سماجت کے باوجود کمپنی بہادر کا علاقہ اور ارادے نہ سمجھ سکا۔ بھورے بال، سر پرانگریزی ٹوپی، نوعمر لڑکی کے چمکتے ہوئے جوتے اورآنکھوں پر چمکتی ہوئی نیلی سی عینک، ہلکے بھورے رنگ کے پینٹ کوٹ، گورا چٹا رنگ، برکت کا سر چکرانے لگا۔ اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی زندگی میں سرِبازارکوئی ایسا دن بھی آسکتا ہے۔ اپنی ساری طاقت اکٹھی کرکے اُس نے چادر کی گرفت ڈھیلی کی اور چلا کر پوچھنے لگا۔

” گورا شاہ جی میری روٹی روزی کا مسئلہ ہے! اور تم لوگ میری عزت اور میرے فن سے کھیل رہے ہو“

بڑی حیرانی سے میم نے اُس کی طرف دیکھا اور ایک آنکھ سے عینک کا لال شیشہ اُٹھاتے ہوئے بولی،

” اس ٹرح کے فن میں اسی ٹرح کا عزت ہوٹا ہے“

” مگر تم لوگ کون ہو۔ ؟ “

” فن کے بادشاہ۔ “ اس نے بے نیازی سے جواب دیا۔

” میرے اڈوں پرناجائز قبضہ کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو۔ ؟ “

کمپنی بہادر بھاری آواز میں میم سے کہنے لگے۔

” ملکہ عالیہ فن کاروں کا بوڑھا سردارآپ سے کچھ سوال کررہا ہے“

” یو اولڈ گھوسٹ۔ تم کو پٹہ نہیں۔ ؟ ہم لوگ نئی نئی منڈیاں تلاش کرٹا اور اپنے فن کے زور پر اپنا سکہ جماٹا۔ ابھی ہمارے فن اور ہاٹھ کی صفائی کا کمال ڈیکھو“

پھر وہ ہجوم کی طرف مُڑی اور اُونچی آواز میں پوچھنے لگی

” یو کریزی فوک، ٹماشا ڈیکھو گے؟ “

ہر طرف سے جواب آیا

” ہاں دیکھیں گے“

” ہاں ابھی ڈیکھو ٹمہارے سامنے فن کے بادشاہ کا فن کیسے خلاص ہوٹا ہے۔ ۔ یو کریزی گائز۔ ایسا تماشا کہ ٹم لوگوں کے ہوش اُڑ جائیں“

ہاں ایسا ہی ٹماشا ڈیکھیں گے۔ (چند منچلے نوجوانوں نے بڑی معصومیت سے میم کے سانگ لگاتے ہوئے کہا)

” ٹو پہلے میری ایک شرٹ، اس پاپی پیٹ کی خاٹر پانچ ڈس بیس روپے کی باٹ ہے۔ تمہاری آنکھوں کے سامنے۔ ہو گا چمتکار۔ ناٹک کرے گا۔ برکٹ۔ پِچھل پیری کا۔ وہ بھی آخری بار۔ ڈھولک کی تھاپ پہ۔ ڈانس کروں گی مَیں۔ مگر پہلے پانچ ڈس بیس روپے“

ہر طرح کی جیب سے آواز آنے لگی

” منظور ہے۔ منظور ہے“

کمپنی بہادر نے برکت کی ڈھولک جو برگدکی جڑوں پر پڑی تھی اُٹھا کر گلے میں لٹکالی اور دونوں طرف سے وہ ہاتھ مارے کہ برکت کے ذہن کی سبھی گُتھیاں الجھ گئیں۔ ڈھولک کے شور میں اُس نے تماشائیوں سے مخاطب ہو کر کہا ”دیکھو اپنی پِچھل پیری کے کرتب اور میم صاحب کا رقص۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ ۔ ٹو ان ون۔ تو سب مل کے گاؤ

چھڑیاں نے دِلی لُٹی

دوپہری دیوا بال لے

تیری کِداں دِلی لُٹی

توں رکھی نئیں سنبھال کے

تماشائیوں کے چہرے کھلکھلانے لگے۔ تبدیلی آ چکی تھی۔ وہ ہیجان جس کی تلاش میں کئی برس گزر چکے تھے اب ان کی شریانوں میں بہہ رہا تھا۔ اور اس روایتی قصبے کی گلیاں جس نظارے کی منتظر تھیں وہ حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ طرح طرح کے لوگ ایسے جمع تھے جیسے وہ کسی دیوتا کے نورانی چہرے کی زیارت اورخوشنودی کے لیے اکٹھے ہوئے ہوں۔ ڈھولک کی تھاپ اور میم کی تالیوں کی گونج میں ان کے بدن تھرکنے لگے۔ میم صاحبہ کے تھر تھراتے بدن کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگاتھا۔ ایسا ناٹک۔ ! برکت تو چکرا گیا۔

کمپنی بہادر نے چادر کے بَل نرم کرتے ہوئے کہا،

” ڈیکھ برکٹ ڈیکھ۔ ڈنیا ٹبڈیلی مانگٹا۔ طاقت ور ہونے کا اورپیسہ کمانے کا انڈاز بھی۔ اب۔ آخری بار۔ اِن لوگوں کو پِچھل پیری کا ناٹک کرکے ڈکھاؤ“

میم ڈانس کرتی برکت کے قریب آئی اور بولی ڈیکھ بڑکٹ ڈیکھ، وہ کیا ہے کہ جھُکٹی ہے ڈنیا جھکانے والا چاہیے

اُدھڑے ہوئے برکت نے چادر اوڑھی، بالوں کو جھٹکا دے کر ہو ہو کیا، منہ پہ اُلٹی سیدھی تیوریاں چڑھائیں اور چڑیلوں کی طرح گھٹنوں کے بَل چل کر ہجوم کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پانچ دس روپے لیتا اور بھاگ لگے رہن کہتا گیا۔ پھریک دم کمپنی بہادر نے ہاتھ بلند کیے اور زور سے چیخا ”خاموش“ جب سب خاموش ہو گئے توگورا صاحب نے میم سے آہستہ سے پوچھا اب برکٹ کا کیا بنے گا؟

” خلاص“ میم نے بڑی بے نیازی سے جواب دیا۔

”you meanکالے پانی کی سزا؟ “

yes ہنی yes۔ ”

میم صاحبہ نے بڑے سریلے انداز میں کمپنی بہادر کے ساتھ مل کر گانا شروع کیا۔

” میرے پیا گئے رنگون

وہاں سے کیا ٹیلی فون

تمہاری یاد ستاتی ہے ”

دائرے میں جھومتی ناچتی میم دس بیس، پچاس اور سو روپے کے نوٹ پکڑتی گئی۔ ۔ پتھرائی آنکھوں سے برکت نے سارا منظر دیکھا۔ پھر دونوں سب کا شکریہ ادا کرتے برکت کو کھینچتے ہوئے قطاروں سے باہر نکلنے لگے۔ ہجوم نے تالیاں بجا بجا کٹھ پتلی پِچھل پیری کو رُخصت کیا۔ کچھ لوگوں کی آنکھوں میں سوالیہ نشان کھٹکنے لگے۔ ۔ مگر اس سے پہلے۔ تینوں نقطوں کی طرح معدوم ہو چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3