صدر ٹرمپ کا کشمیر پر موقف اور پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ


امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے پاکستان کی آزادی کے موقع پر 15 اگست 1947 کو گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نام جو تہنیت پیغام ارسال کیا وہ یہ تھا۔

”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ڈومینٹین (پاکستان ) امریکہ کی مضبوط دوستی اور خیر سگالی کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرے گا امریکی حکومت اور عوام آپ کے ملک کے ساتھ طویل قریبی اور خوشگوار مراسم کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم آپ کی خوشی میں شامل ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ پاکستان اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے تیزی سے ترقی کرے گا۔ ہم منتظر ہیں کہ نیا ملک انسانیت کی فلاح کے لیے عالمی امور میں تعمیری کردار ادا کرے گا۔”

گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے امریکی صدر کے پیغام تہنیت کا جواب ان الفاظ میں دیا۔

“آپ نے امریکی عوام کی جانب سے ڈومنین آف پاکستان کے نام مبارکباد اور نیک تمناؤں کا جو گرم جوش پیغام ارسال کیا اس سے حکومت پاکستان، عوام اور میں بے حد متاثر ہوں۔ ہم دوستی اور خیر سگالی کے جذبات کی بڑی قدر کرتے ہیں میرے ذہن میں کوئی شک نہیں کہ یہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان طویل قریبی اور خوشگوار تعلقات کا آغاز ہے ”
بحوالہ قیوم نظامی کی کتاب پاکستان امریکہ بنتے بگڑتے تعلقات۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ کو دوستی، اندیشوں خدشات، تحفظات، شاطرانہ اتحادوں، وعدہ خلافیوں بے وفائیوں، پابندیوں اور سفارتی فن کاری کی تاریخ ہی کہا جا سکتا ہے پاک امریکہ تعلقات کو قائم رکھنے کی ضامن پاک فوج ہے، جب تک پاک فوج سیاسی اور جمہوری اداروں پر غالب رہے گی پاک امریکہ تعلقات قائم رہیں گے۔

پوری دنیا کی نظریں وائٹ ہاؤس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ ملاقات پر لگی ہوئی تھی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ ٹرمپ نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دیرینہ مسئلہ کشمیر کو حل کروانے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیاء کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر امریکہ نے ماضی میں مصلحت سے کام لیا کہیں ایسے مواقع آئے جب امریکہ ہندوستان پر دباؤ ڈال کر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا تھا۔

مسئلہ کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کم و بیش پانچ چھوٹی بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ جی ڈبلیو چوہدری اپنی کتاب انڈیا پاکستان اینڈ مجیر پاور میں لکھتے ہیں کہ امریکہ آزادی فارمولا کے مطابق 1948 ء میں انصاف اور قانون کا ساتھ دیتے ہوئے ہندوستان پر دباؤ ڈالتا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جاتا مگر امریکہ نے مصلحت سے کام لیا۔

9/ 11 کے واقعہ نے عالمی منظر نامہ کو تبدیل کر دیا پاکستان اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحران میں داخل ہو گیا۔ امریکہ افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ میں مصروف رہا پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا لہذا افغان جنگ کے دوران امریکہ کا کشمیر کے بارے میں رویہ متوازن رہا اور اس نے ہندوستان کو باور کروایا کہ کشمیر ایک تنازعہ ہے جس کا مذکرات کے ذریعے حل تلاش کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر امریکہ کا جھکاؤ ہمیشہ ہندوستان کی جانب رہا امریکہ اگر چاہتا تو وہ ہندوستان پر دباؤ ڈال کر مسئلہ کشمیر حل کروا سکتا تھا مگر اُس نے ہمیشہ پاکستان پر دباؤ ڈالا اور جب بھی ہندوستان مشکل صورت حال میں گرفتار ہوا امریکہ اُس کی مدد کو آیا۔ امریکہ کی ہر حکومت نے پاکستان کو کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کی یقین دہانی کروائی مگر جب امریکہ اپنا مفاد حاصل کر لیتا ہے تو وہ کشمیر پر موثر اور فعال کردار ادا کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ آج امریکہ افغانستان سے باعزت واپسی چاہتا ہے اس لیے ایک بار پھر پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی ادا کرنے کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہے۔

امریکہ کے سابق صدر آئزن ہاور نے 16 اپریل 1963 ء کو اپنے تاریخی خطاب میں کہا۔

”ہر بندوق جو تیار کی جاتی ہے۔ ہر جنگی جہاز جس کو پانی میں اتار جاتا ہے، راکٹ جو فائر کیا جاتا ہے، آخر کار ظاہر کرتا ہے کہ ہم ان لوگوں سے نظریں چُرا رہے ہیں جو بھوکے ہیں اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ جو سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں اور ان کے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ دنیا اسلحہ بنانے کے لیے صرف دولت خرچ ہی نہیں کر رہی یہ اپنے مزدورں کا پسینہ خرچ کر رہی ہے اور اپنے سائنسدانوں کی ذہانت اور اپنے بچوں کی امیدیں خرچ کر رہی ہے۔ حقیقی معنوں میں یہ زندگی گزارنے کا طریقہ نہیں یہ انسانیت ہے جو جنگ کے سایوں میں سولی پر لٹکی ہوئی ہے“

آج اگر آئزن ہاور زندہ ہوتے تو اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ان کا ملک امریکہ افغانستان پر ننگی جارحیت کا ارتکاب کرتا رہا اس نے لاکھوں عورتوں کو بیوہ اور لاکھوں بچوں کو یتیم بنایا، مزدور کا پسینہ اور سائنسدانوں کی ذہانت تباہی کے لیے استعمال کی۔ جب تک امریکہ اپنے خطے تک محدود تھا وہ انسانیت کا علمبردار تھا دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگا اس خواب کی تعبیر کے لیے اس نے طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا۔ مگر اسے افغانستان میں کامیابی نہیں ملی وہ اس خطے سے ویت نام کی طرح واپس نہیں جانا چاہتا باعزت واپسی چاہتا ہے اس لیے اج پھر اُسے پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑ گئی۔

پاکستان امریکہ تعلقات کی ستر سالہ تاریخ اس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ خود غرضی کا مظاہرہ کیا۔ کشمیر کے مسئلہ اور پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر امریکی رویہ اس امر کا کُھلا ثبوت ہے امریکہ ہندوستان کے ساتھ تعاون کرتا رہا جبکہ پاکستان کو دوستی کے دعووں اور اعانت کے وعدوں سے بہلاتا رہا۔ سٹفین کوہن کے مطابق امریکہ نے شارٹ ٹرم فائدے کے لیے لانگ ٹرم اندیشوں کو نظرانداز کیا اس پالیسی سے انتہائی مہلک اثرات مرتب ہوئے۔

پاکستان کی عوام امریکہ کے سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں اس پر کسی صورت اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں پاکستانی قوم سمجھتی ہے کہ امریکہ پاکستان کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے بعد چھوڑ دیتا ہے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ تعلقات بگاڑنے نہیں چاہیے چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے چین نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا چین خلوص نیت کے ساتھ چاہتا ہے کہ پاکستان ترقی کرے اور عوام خوشحال ہوں ہمیں ماضی کے تجربات کی روشنی میں رفتہ رفتہ امریکہ پر انحصار کم کرنا چاہیے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui