ایک صحافی کا عالم برزخ سے اپنے بیٹے کو لکھا خط


پیارے بیٹے!

امید ہے کہ تم سب خیریت سے ہو گے۔ میں بھی اللہ کے فضل و کرم سے خیریت سے ہوں۔ ابھی چند روز پہلے ایک عزیز دوست کی یہاں آمد ہوئی۔ اس کے ذریعے تمھارے بارے میں حالات سے آگاہی ہوئی۔ سن کر دلی مسرت ہوئی کہ اس سڑے گلے نظام کے خلاف تم نے علم بغاوت بلند کر رکھا ہے۔ اور سیکھنے سکھانے کا عمل شروع کردیا ہے۔ بیٹا میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا زندگی میں اہم یہ نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسروں کی بہتری کے لیے کیا کیا۔

تمھارے جوش مارتے خون کی وجہ میں باخوبی سمجھ سکتا ہوں، کیونکہ تم اس باپ کے بیٹے ہو جس نے زمانہ طالب علمی سے ہی این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے ملک کے کچلے ہوئے مظلوم طبقے و سامراج کی تیسری دنیا میں ریشہ دوانیوں کے خلاف طویل جدوجہد کری۔

بیٹے مطالعہ کے بغیر علم کا حصول ممکن نہیں ہے

کیونکہ مطالعہ ہی انسان کی شخصیت کو ارتقاء کی بلند منزلوں تک پہنچاتا ہے

اس لئے سب سے پہلے اپنا مطالعہ وسیع کرو۔ میرے شیلف میں رکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کرو۔ لینن، فیڈل کاسترو اور چی گویرا کو پڑھو۔

مگر دھیان رکھنا تم اچھی طرح سے واقف ہو کہ ملک میں غیر علانیہ مارشل لاء نافذ ہے۔ تمام ادارے مفلوج کردیئے گئے ہیں۔ اور آزادی اظہار رائے پر پہرے بیٹھا دیے گئے ہیں سچ بولنے اور لکھنے پر پابندی ہے۔ اس لئے ذرا دھیان رکھنا۔

گوکہ ہم 77 میں بھی جنرل ضیاء کا بدترین مارشل لاء کا دور بھی دیکھ چکے ہیں۔ جس میں ہمارے دائیں بازو کہ حامی ساتھیوں نے صحافتی آزادی اور انسانی حقوق کی لاوال جدوجہد کری۔ ہم نے بھی تحریروں کے ذریعے حکمرانوں کے استحصالی ظالمانہ رویوں کے خلاف تحریری احتجاج ریکارڈ کرایا۔

نثار عثمانی، منہاج برنا، حسین نقی، معراج محمد خان، آئی اے رحمان، حبیب جالب۔ تمھارے ماموں احفاظ الرحمن وغیرہ یہ وہ نام ہیں جنھوں نے جنرل ضیاء کے بدترین مظالم سہنا تو گوارا کیا مگر اپنے اصولوں سے سمجھوتا نہیں کیا۔ سیاسی وسماجی زبوں حالی ہو کہ آمریت کا سیاہ دور، معاشرتی ناہمواریاں ہوں کہ نا انصافی کا کرب انھوں نے اپنی ساری ایک زندگی جہد مسلسل میں گزاری۔

ناصر زیدی، اقبال جعفری، عثمانی، برنا صاحب، معراج، حسین نقی، احفاظ، خاور یہ وہ لوگ ہیں جنھوں ظلم و بربریت کے خلاف جہاد کرتے ہوئے سخت مشکلات و آزمائشوں کا سامنا کیا۔ اس بدترین دور میں انھوں نے کئی کئی مہینوں کی مفروریاں کاٹیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کریں، جنرل ضیاء کے کوڑے کھائے۔ مگر زنداں کے مصائب بھی ان کی بے خوف آوازوں کو نہ دبا سکے

یہ تمام حریت پسند جبرو استحصال کے دشمن تھے۔ عدل و انصاف کے داعی تھے۔

مگر پیارے بیٹے! اب نا برنا صاحب و معراج رہے،اور نا سامراج کے خلاف جدوجہد کرنے والی ”این ایس ایف“ باقی رہی۔ ہمارے وقتوں میں تو ”پی ایف یو جے“ بھی بڑی منظم و مطبوط ہوا کرتی تھی اب اس نے بھی اپنا وجود کھو دیا ہے۔

حسین نقی صاحب اور تمھارے ماموں احفاظ بھی بوڑھے ہوچکے ہیں۔ مگر اس عمر میں بھی وہ بھرپور عزم اور ارادے کے ساتھ استحصالی قوتوں کے خلاف اپنی پوری طاقت سے علم بغاوت بلند کیے ہوئے ہیں۔

بیٹا، جنرل ضیاء کے دور میں تو سچ بولنے اور لکھنے والوں کو جیل کی کال کوٹھریوں میں قید کردیا جاتا۔ ان پر روزگار کے دروازے بند کردیئے جاتے تھے۔ مگر آج اس جمہوری مارشل لاء کے دور میں سچ بولنے اور لکھنے والوں کو اس سے زیادہ مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان پر زمین تنگ کردی جاتی ہے انھیں ملک دشمن اور بھارتی ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا بنادیا جاتا ہے۔ اور اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہوگی محب وطن قلمکاروں کو غداری کی اسناد سے نوازا جائے۔

لہذا پیارے بیٹے تم اپنی قلمی جدوجہد جاری رکھو مگر احتیاط لازمی کرو۔ اور اپنے علم کو وسیع کرو۔ باقی یہاں اکثر ہماری نشستیں لگتی ہیں۔ فیض صاحب۔ جالب۔ برنا صاحب۔ معراج۔ عبید اللہ علیم۔ جون ایلیا، نثار عثمانی، عاصمہ جہانگیر، وغیرہ

ہم سب مل کر بیٹھتے ہیں جالب یہاں بھی ہمیں اپنی انقلابی نظمیں سناتے ہیں۔ مگر ملک کی موجودہ صورتحال اور سینسر شپ پر ہم سب کے دل بہت دکھتے ہیں۔ مگر امید کی کچھ کرنیں ابھی باقی ہیں۔ اور ہمارا یقین ہے انشاللہ وہ دن ضرور آئے گا بقول فیض۔

ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوح ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی

اور اہل حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

جب ارض خدا کے کعبے سے

سب بت اٹھوائے جائیں گے

ہم اہل سفا مردود حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے۔

سب گھر والوں دوستوں اور عزیزوں کو دعا و سلام۔

خیر اندیش

نسیم شاد ( پپا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).