شاہ “دوم” اور عالمی طاقت کے گُھٹنے


آج حالیہ دورہ امریکہ کی ایک تصویر جس میں جناب عمران خان صاحب ایک ہاتھ میں تسبیح اور سیاہ شلوار قمیض پہنے مسکراتے ہوئے کھڑے ہیں اور عقب میں شاہ محمود قریشی بھی موجود ہیں۔ یار لوگوں نے اس تصویر کے پار جھانکتے ہوئے بادشاہِ ”دوم“ کی وجاہت، پرہیز گار تسبیح اور لباس کے مقابل عالمی طاقت کو دہشت زدہ دیکھ بھی لیا ہے۔ تسبیح و لباس کی خوش نصیبی کا شخصی تعارف سننے کے بعد ہم تو غالب کا شعر گنگناتے ہوئے سر دُھنتے پھر رہے ہیں۔

ترے جواہرِ طُرفِ کُلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوجِ طالعِ لعل و گُہر کو دیکھتے ہییں

مذکورہ تصویر مُحبان پی ٹی آئی کی طرف سے بڑے فخر کے ساتھ پیش کی گئی ہے اور اس یقین کے ساتھ کہ اب عالمی طاقت شاید اس وجاہت، پرہیزگاری اور تسبیح کے وظائف کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رکھتی۔

حقیقت پسندی سے کیا گیا تجزیہ اب فتویٰ ساز فیکٹریوں سے غداری اور کُفر کے نتائج لانے کا کام ہی انجام دے سکتا ہے۔

بات گھٹنوں تک تو ضرور پہنچی ہے اسے تسلیم کرنے میں ہمیں تو کوئی عار نہیں۔ لیکن یہ گھٹنے ٹیکنے کی نہیں بلکہ گھٹنے پکڑ کر پُرانی غلطیوں کی معافی اور آئیندہ ایسی غلطیاں نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی جائے گی۔ اس تصویر میں شاہ کے مصاحبوں کو مذہبی و قومی رنگ یکجا ہوکر دشمنوں کے لئے خوف کی دہشت بنا حریفوں کے بخیے ادھیڑتا نظر آیا۔ قصیدہ گوئی کے فن کے احترام میں مجھے ان احباب کے فہم اور تعریف پر کوئی اعتراض نہیں۔

کچھ سوال ضرور ہیں ایسے دوستوں سے۔

کہ کیا ایسا لباس، وضع قطع، مذہبی دکھاوے کی علامت تسبیح واقعی میں دُشمن پر دھاک بٹھا سکتی ہے؟ امریکہ میں ہم پیشی بھگتنے گئے ہیں یا دھاک بٹھانے کے لئے گئے ہیں؟ ساکھ بچانا اور دھاک بٹھانا ہم قافیہ ضرور ہیں۔ ہم معنی نہیں۔ دورہ امریکہ کچھ مسائل بارے مدد حاصل کرنے کی تگ و دو اور خطہ کے امن بارے طاقتوں کے تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانی کروانا ہے؟

بڑی طاقتوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب اس خطہ میں امن قائم کیے بغیر خطہ کی ترقی ممکن نہیں۔ جس کا اعترافی بیان ہمارے دفاعی سربراہ نے برملا خطہ میں امن کی بات کو دُہرایا۔

اس ضمن میں چند اور فیصلے جیسے سِول ایوی ایشن کی طرف سے فضائی حدود پر ہمسایہ ملک کے لئے نافذ پابندی کو ختم کیا جانا۔ اور بین الاقوامی طور پر اعلانیہ دہشت گرد حافظ سعید کو سرکاری تحویل میں لینا۔

احباب کے لئے عرض ہے۔ کہ مبالغہ آرائی اور حقیقت پسندی اور دلیل سے بات پیش کرنے کے فن کی آبیاری کریں۔ لباس وضع قطع کو امن اور دہشت کی دلیل پر کب سے پرکھا جانے لگا؟

جیلوں میں قید مجرم دن رات ایسا ہی لباس زیب تن کیے عبادت، دعاوں کی کثرت اور وظائف کا ورد کرتے ہوں گے۔ ایک دوست کا کہنا ہے کہ جتنی عبادت، مٙنتیں، وظائف جیل کی چار دیواری کے اندر کیے جاتے ہیں اتنی عبادت تو خانقاہوں اور مساجد میں بھی نہ کی جاتی ہوگی۔ مسائل کا حل تسبیح اور وجاہت نہیں۔ کیالباس، تسبیح اور وظائف کی بنیاد کسی کے امن پرست کی علامت ہوسکتا ہے؟ تو اس ضمن میں بدقسمتی سے جو حقائق منظر عام پر ہیں۔ ان میں ملوث زیادہ تر دہشت گرد جو ملک پاکستان میں عبادت گاہوں، دفاعی اداروں یا عام عوام پر دھماکے کرتے اور کرواتے ہیں۔ اس شبیہہ میں مذکورہ علامات سے بھی کچھ زیادہ علامات کے مُقلد جیسے داڑھی، عمامہ و دیگر کے پابند نظر آتے ہیں۔

امداد پر منحصر ممالک کے لوگ بھی علمی تنزلی کا شکار ہوکر کامیابی کا انحصار شخصیت پرستی میں گُم ہو کر کبھی لباس جوتوں، تسبیح، اور وجیہہ الشکل ہونے میں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔

ملکی سربراہ اور دفاعی ادارے کے سربراہ ملک و قوم کے مستقبل کو روشن کرنے کی سعی میں کامیاب و کامران لوٹیں۔ اور ملک و قوم کو خوش حال رکھنے کے لئے ملکر کام کرنے کا عزم برقرار رکھیں۔

نوجوان فکر کو چاہیے کہ شخصی تجزیات میں مذہبی لبادے سے ہٹ کر افکار پر زور ہونا چاہیے۔ کہ قومی مقاصد میں کامیاب ہو سکیں۔ شخصی تعصب میں گھرے مصاحبوں سے ملتمس ہوں۔ شخصی محبت میں بھی علمی فکر کو اجاگر کرنے کا کام کریں نہ کہ خوشامدوں کا ٹولہ پیدا کرنیکا۔

سچائی اور اظہار آزادی کے اصول پر چلتے ہوئے ملکی مُفاد ہر حال ہر فورم پر مُقدم رہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).