میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں


سب سے پہلے تو اس بات کا اقرار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جب ہم نے اپنی کالم نویسی کا آغاز کیا تھا تو اس بات کا عہد اپنے آپ سے کیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے حالات کے مثبت پہلوہی اجاگر کریں گے۔ اور تصویر کے منفی رخ سے ہر ممکن حد تک اجتناب کریں گے۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ ہمارے خیال میں ہر طرف منفی خبروں کی بھر مار ہے۔ اور ان حالات میں انسان کو مزید مایوسی پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ لیکن آج ایک طرف تو اپنے اس عہد کو توڑے ہوئے کچھ بے چینی کا احساس ہو رہا ہے۔

تو دوسری طرف ایک گتھی بھی سلجھ رہی ہے کہ اپنے قارئین تک اپنے دل کی بات پہنچائے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ اپنے اس عہد کو توڑنے میں ویسے تو بہت سے عوامل ہیں لیکن تابوت میں آخری کیل ایک بین الاقوامی روز نامے کے پرانے شمارے کی رو گردانی کرتے ہوئے ایک رپورٹ نے ٹھونک دی۔ یہ رپورٹ کو ئٹہ میں ہزارہ برادری پہ ہونے والے المناک حملوں اور ٹا رگٹ کلنگ کے حوالے سے تھی۔ اس سلسلے میں آخری حملہ رواں سال ا پریل کو کوئٹہ میں ہوا جس میں بیس افراد ا پنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

رپورٹ کے مطابق ستمبر 2011 سے اب تک ہزارہ برادری کے چار ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ اور نوے ہزار سے زیادہ خاندان دوسرے ملکوں میں ہجرت کرنے پہ مجبور ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ ہزارہ برادری پہ کوئٹہ میں ہونے والا حملہ کوئی نیا واقعہ نہیں بلکہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس ضمن میں پہلا واقعہ 1999 میں ہوا جب ہزارہ برادری کے ایک ایم پی اے پہ حملہ کیا گیا۔ ایک دوسر ی رپورٹ کے مطابق کو ئٹہ میں شاید ہی ہزارہ برادری کاکوئی گھر ہو جس کا کوئی فرد ٹارگٹ کلنگ میں مارا نہ گیا ہو۔ ہزارہ تاریخی طور پہ منگولوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو وسط ایشیا سے ہجرت کر کے افغا نستان میں آ ے ٗ فارسی ان کی مادری زبان ہے اور شیعہ مکتبہ فکر کے ماننے والے ہیں ان کی زیادہ تر تعدادافغا نستان، پاکستان اور ایران میں آباد ہے۔ جبکہ ان کی اچھی خاصی تعداد بیرون ممالک آباد ہے

ہزارہ برادری کی منظم ٹارگٹ کلنگ کے پس منظراور وجوہات کے بارے میں بہت سے آراء ہیں اوربہت سے بے لاگ تجزیے اور بیانات ہیں جن سے معلومات کا خزانہ امڈ آیا ہے۔ لیکن ایک بات بڑی و ا ضع ہے کہ ریاست اس ضمن میں ا بھی تک اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی ا ور ہزارہ برادری کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کیٗ ارباب دانش فرقہ واریت، افغا نستان کی جنگ، خطہ کی صورتحال، بیرونی ہاتھ اور آپس کی دشمنیوں کوموجودہ صورتحال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جبکہ کچھ دانشورحضرات کے نز دیک اس ناکامی کی وجہ نیشنل ایکشن پلان پہ عمل درآمد نہ ہونا ہے

یہ طبقہ فکر ضرِب عضب اور اس طرح کے د یگر آپریشنز کی خو بیوں کا راگ الاپنا شروع کر د یتے ہیں اور اس کے فوائد گنوانے بیٹھ جاتے ہیں ان صاحبان دا نش کے نزدیک اس معاملے کی اصل و جہ عسکری اور سیاسی قیادت کے ایک پیج پر نہ ہو نا ہے۔ یہ حضرات عوام کے مسائل کے حل نہ ہونے کی وجہ سیاسی حکومتوں سے زیادہ ان کے راستے میں حائل بظاہر نظر نہ آنے والی رکاوٹوں کو گردانتے ہیں یہ لوگ تمام مسائل کی جڑ اسٹبلیشمنٹ کی ریشہ دوانیوں او ر سازشوں کو سمجھتے ہیں۔

اس نقطہ نظر میں کچھ حقیقت بھی ہوگی کیونکہ ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ملکوں میں ایساہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور ہماری تاریخ بھی اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے اگر سیاستدان اتنے ہی مجبور ہیں جیسے کہ یہ ظاہر کرتے ہیں تو پھر کیوں ان تمام مجبوریوں کے باوجود ان کو اقتدار میں آنے کی جلدی ہے؟ کیوں یہ لوگ ان بے توقیر عہدوں کے پیچھے بھاگتے ہیں؟ کیا ہمارے سیاستدانوں کو تعلیم اور صحت جیسے مسائل حل کرنے سے بھی اسٹبلیشمنٹ نے روکاہے؟ کیا قوم کو اچھی گورنینس دینے سے اسٹبلیشمنٹ منع کرتی ہے؟ یقیناً ایسا نہیں۔ اگر ان کی جمہوریت کے تسلسل کے نہ ہونے کی بات کو مان بھی لیا جائے تو بھی سیاستدانوں کو اس صورتحال سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا

ہزارہ برادری پہ ہونے حملوں کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ اس برادری کی نسل کشی افسوس ناک اورناقابل برداشت ہے۔ اربا ب ا ختیار اور متعلقہ ادارے ہر واقعہ کے بعد مذمتی بیان جاری کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف مذمت سے کام چل جاے گا؟ پے در پے کیوں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں؟ کیوں ہزارہ برادری کی مشکلات جوں کی توں ہیں؟ اورکیا ہم اس اور اس طرح کے دیگر خطرات سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں؟

تیاری اگر زبانی جمع خرچ سے ہوتی ہو تو یقینا ہم تیار ہیں کیونکہ زبانی جمع خرچ میں ہمار کوئی ثانی نہیں لیکن شاید عملی طور پر ہم اس میدان میں بہت پیچھے ہیں ایک پاکستانی کی حیثیت سے یہ سوال میرے ذہن میں آتا ہے کہہزارہ برادری او ر ان کے بے گناہ بچوں کا قصور کیا تھا کیوں وہ اپنی زندگی کہ بہاریں دیکھنے سے پہلے ہی اس دنیا سے چلے گے ٗ؟ کیوں ان کے ماں باپ ان کی قلقاریاں دیکھ اور سن نہیں سکتے؟ شاید ان کی شکل و صورت اور دیگر خدوخال کا منفرد ہونا ہی ان کا قصور ہے یا شایدایک خاص مکتبہ سے تعلق ہی ان کی نسل کشی کی بنیادی وجہ ہے

قارئین ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرے گا کہ کالم عمومی طور پہ حالات حاظرہ پہ لکھا جاتا ہے جبکہ اس سلسلے میں ہونے والے آخری واقعے کو رونما ہوئے کیٗ ماہ گزر چکے ہیں۔ مگراس حقیقت کا کیا کیا جا ئے کہ ہزارہ برادری کی مشکلات روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں اور اس میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہرنے پہنے ہوئے ہیں دستانے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).