فلم ہر فن مولا اور جعلی صحافی


جنرل پرویز مشرف صاحب کا دور صدارت تھا۔ یہ دور تھا نئی نئی متعارف ہونے والی روشن خیالی کا۔ اس دور میں اک فلم بننا شروع ہوئی تھی ”ہر فن مولا“۔ اس سے پہلے مولا کا نام لے کر بہت سی فلمی بنی تھیں مثلاً مولا جٹ، مولے دا کھڑاک، مولا گجر، مولا تے مکھو وغیرہ۔ مگر وہ سب پنجابی فلمیں تھیں اور ان میں پرانے چہرے پرانے ادارکار اور صدا کار تھے۔ فلم ہر فن مولا کی انفرادیت تھی نئے چہرے۔ فلم کے ہدایت کار اور پیش کار تھے ایم کے خیالی۔

یہ فلم ایسے ہیرو کی کہانی تھی جو ہر فن مولا ہے۔ جب وہ بولتا تو اس کی آواز کے پیچ و خم زیر و بم کے آگے سب کی آواز دب جاتی۔ جب بات کرے تو دلیلوں کے انبار لگا دے۔ جس موضوع پہ ہاتھ ڈالے حق ادا کردے۔ جس سے آنکھیں چار کرے اسی کو ڈھیر کردے۔ آواز میں ایسی گرج کے لاؤڈ سپیکر سن کر شرمندہ ہو۔ چونکہ نئے چہروں کی تلاش تھی سو بہت سے نئے چہرے نمودار ہوئے۔ جن کی نہ تو تعلیم و تربیت تھی نہ ہی کوئی مشق گزاری۔ آڈیشن ہوا شوقیہ فنکار چند لمحوں کے مہمان بنے اور فارغ۔ آ کے بیٹھے بھی نہ تھے کہ اٹھائے اور نکالے گئے۔ فلم ہنوز زیر تکمیل۔

جنرل مشرف صاحب کا ہی دور تھا ہر روز نئے نئے چینلز بن رہے تھے۔ چینلز بنانا منافع بخش کاروبار تھا۔ کم خرچ بالا نشین بلکہ بعض اوقات بے خرچ بالا نشین۔ جگا گیری، ناموری، دھونس اور کھرا منافع، پورا پیکج تھا پانج انگلیاں پانچوں چراغ۔ سیٹھوں نے سرمایہ لگا دیا۔ دھڑا دھڑ پرائیویٹ چینلز بننا شروع ہوگئے۔ وہی ہیرو بننے کے آرزو مند مسترد شوقیہ فنکار یہاں اینکر اور صحافی بن بیٹھے خالی برتن کی طرح جن کا سارا زور اونچا بولنے پہ۔

تہذیب، شائستگی ٹھہراؤ نام کو بھی نہیں۔ زیادہ تر سیٹھوں کا مقصد پیسہ بنانا تھا اس کو صحافت سے سروکار نہیں اور یہ نئے نئے اینکر پاپی پیٹ کی خاطر صحافی کی بجائے مختلف پارٹیوں کے ترجمان بن گئے۔ کیونکہ انہی پارٹیوں سے اشتہارات کی مد میں پیسہ آتے ہیں جن سے ان صحافیوں کا مشاہرہ ادا ہوتا ہے۔ تعلیم مشکوک، تربیت نامعلوم، کتاب سے رشتہ مفقود۔ مگر انہوں نے اسکرپٹ وہی فلم ہر فن مولا کا پڑھا ہوا ہے۔ اسی لیے کیا فلسفہ، کیا منطق، کیا سیاست، کیا تاریخ، کیا مذہب و ملت، کیا جنگی حکمت عملی، کیا خارجہ پالیسی، کیا سوشل موضوعات، کیا قدرتی وسائل، کیا معاشیات، کیا صحت طب و جراحت، کیا سائنس و ٹیکنالوجی، کیا دقیق موضوعات ان اینکرز کی ہر جگہ دسترس ہے۔ بلکہ ان کی زد میں ہے گردوں۔ ہر موضوع سخن ان کے علم کے آگے ہیچ ہے۔ سقراط بقراط ان کا پانی بھرتے ہیں۔ ارسطو تک ان کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرتا ہے۔

اصل صحافی تو آج بھی بدحال ہے مگر جعلی صحافی پیسہ بنا رہے ہیں اور ناموری کمارہے ہیں۔ تعلیم و تربیت سے عاری ان جعلی صحافیوں سے اگر چند سوال پوچھے جائیں تو ان کی ملمع کاری اتر جائے۔ کس کا کتاب سے مضبوط رشتہ ہے۔ ان میں سے کون وسیع المطالعہ ہے جو ہرروز ملکی اور غیر ملکی پانچ سات اخبارات اور درجن بھر کالمز پڑھتا ہو۔ ان میں سے کس کو پتہ سرخی کیسے بنتی ہے۔ خبر کیا ہوتی ہے۔ ان میں سے سوائے چند دانوں کے کسی کو معلوم بھی نہیں کبھی صحافت میں کیسے درخشاں ستارے تھے۔ سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، امتیاز علی تاج، غلام رسول مہر، چراغ حسن حسرت، ندیم قاسمی، حسرت موہانی، مجید لاہوری۔ فیض احمد فیض، سبط حسن، ابراہیم جلیس، ابن انشاء۔ شوکت صدیقی، منو بھائی۔ اور بے شمار انمول ہیرے۔

ٹی وی کی میزبانی اور انٹرویو کرنا اک فن اک مہارت کا نام ہے۔ کبھی ٹی وی پہ وہ لوگ میزبان ہوا کرتے تھے جن کی قابلیت شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ محترم ضیاء محی الدین صاحب، محترم اشفاق احمد صاحب، محترم طارق عزیز صاحب، محترم مستنصر حسین تارڑ صاحب، محترم دلدار پرویز بھٹی صاحب، محترم نعیم بخاری صاحب۔ موجودہ دور میں نجم سیٹھی صاحب اور سہیل وڑائچ صاحب بھی اچھا انٹرویو کرتے ہیں۔

دوبارہ موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ان چینلز اور اینکرز کی بدولت ہمیں وہ مقامات دیکھنے نصیب ہورہے ہیں کہ دانتوں کو پسینہ آئے۔ ہیجان اور سنسنی بقول استادم نصرت جاوید صاحب سیاپا فروشی۔ کبھی مقتول کی ماں سے پوچھا جاتا ہے آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے۔ کبھی کیمرا قبر کی پیمائش کرتا ہے اور بتایا جاتا ہے یہ ہے وہ قبر جہاں مردے کو دفنایا جائے گا۔

ضروری نہیں صحافی بہت ساری ڈگریاں لے کر آئے۔ تربیت بھی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ کسی زمانے میں پاک ٹی ہاؤس، کافی ہاؤس اور اس طرح کے مقامات تربیت گاہ کا کام کرتے تھے جہاں صاحبان علم کی صحبت میسر تھی۔ اب میڈیا انڈسٹری کی گراوٹ کی روک تھام کے لیے پیمرا یعنی حکومت اور پرائیویٹ چینلز یعنی میڈیا انڈسٹری اور سول سوسائٹی کو مل کر حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ صحافت اک مقدس پیشہ ہے اس کا تقدس بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہ ریٹنگ کی دوڑ معاشرے کی اخلاقی قدریں تباہ کرکے رکھ دے گی اور صرف شور بچے گا۔ شور اور شعور میں صرف ع کا فرق ہے اور یہ ع علم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).