صفائی نصف ایمان ہے


فلموں، ڈراموں اور خبروں میں مغربی ممالک کی جو جھلکیاں نظر آتی ہیں ٱن میں ایک چیز واضح ہوتی ہے اور وہ ہے صفائی۔ صاف ستھری سڑکیں اور فضا، طوفان اور شدید بارش کے بعد جلد ہی رواں دواں ہوتے معمولاتِ زندگی، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قدرت ٱن پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہے۔

کیا یہ واقعی قدرت کی مہربانی ہے یا درِپردہ وجوہات کچھ اور ہیں؟

ہم میں اور ٱن میں کیا فرق ہے؟

ارشادِ نبوی ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ بدقسمتی سے یہ ایمان کا وہ نصف حصہ ہے جس پر ہمارا زیادہ دھیان نہیں ہے۔ اِس ارشاد میں صفائی کا مفہوم تو یقیننا وسیع ہے لیکن اِس تحریر کا موضوع ماحول اور گرد و نواح کی صفائی تک محدود رہے گا۔ اِس معاملے میں ہمارا رویہ یہ ہے کہ اپنا گھر تو صاف رکھا جائے لیکن گھر سے باہر آپ کسی بھی پابندی سے آزاد ہیں اور ہر جگہ کو جیسے دل میں آئے گندا کر سکتے ہیں۔ یعنی ہمارا قومی رویہ اس معاملے میں بھی انفرادی ہے اجتماعی نہیں۔

ایک مثال ملاحظہ ہو۔ جس رکشہ پر میں کالج جایا کرتی تھی ٱس میں سکول کے کچھ بچے بھی جاتے تھے۔ واپسی پر وہ اکثر راستے میں چپس یا بسکٹس وغیرہ کھاتے اور ریپرز چلتے رکشہ سے سڑک پر پھینک دیتے۔ ایک روز میں نے انہیں کہا آپ یہ ریپرز بیگ میں رکھو اور گھر جا کر کوڑا دان میں پھینکنا۔ اگلے دن ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے نظریں بچا کر ریپرز سڑک پر ہی پھینک رہے تھے۔

پارکس یا عوامی جگہوں پر بھی کم و بیش یہی صورتِ حال نظر آتی ہے۔ اور تو اور تعلیمی اداروں کے گراٶنڈز بھی یہی منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔

ذرا سی تیز ہوا چلے تو ہر طرف پلاسٹک بیگز ٱڑتے نظر آئیں گے۔

تھوڑا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ علاقے جو ٱمرا کا مسکن ہیں وہ صاف نظر آتے ہیں۔ تو کسی حد تک ہم صورتِ حال کا تعلق غربت سے بھی جوڑ سکتے ہیں۔

یہ ہماری بے حسی ہی ہے کہ ہم اپنے ملک کو اپنا گھر نہیں سمجھتے۔ عوامی تعاون کے بغیر حکومت کبھی بھی صفائی کا مشن پورا کر سکتی۔ اگر ہم اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہیں تو حکومت بھی ناکام ہو جائے گی۔

اِس حوالے سے ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اگر اپنا گھر صاف کرتے ہیں تو اپنی گلی کا بھی خیال رکھیں۔ عوامی جگہوں پر جاتے ہیں تو گند نہ پھیلائیں، اپنا کوڑا کرکٹ خود أٹھا کر جائیں۔ یہ ملک ہماری پہچان ہے۔ اِسے سنوارنے سے یہ پہچان قابلِ فخر ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).