قبائلی انتخابات: موروثی سیاست کامیاب ٹھہری یا ناکام؟


قبائلی اضلاع میں پہلی بار ہونے والے صوبائی انتخابات کافی حد تک پر امن طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق آزاد امید وار وں نے 6، پی ٹی آئی نے 5، جمیعت علمائے اسلام (ف) نے 3، جماعت اسلامی نے ایک اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی ایک نشست حاصل کی ہے۔ غیر حتمی و غیر سر کاری نتائج کے مطابق PK۔ 100 باجوڑ ( 1 ) سے پی ٹی آئی کے امید وار انور زیب خان 12 ہزار 951 ووٹ لے کر کامیاب رہے، PK۔ 101 باجوڑ ( 2 ) سے بھی پی ٹی آئی کے امید وار اجمل خان 12 ہزار ووٹ لے کر کامیاب رہے، PK۔102 باجوڑ ( 3 ) میں جماعت اسلامی کے سراج الدین 19 ہزار 88 ووٹ لے کر فاتح قرار پائے، PK۔ 103 مہمند سے عوامی نیشل پارٹی کے نثار احمد 11 ہزار ووٹ لے کر کامیاب رہے، PK۔ 104 سے آزاد امید وار عباس الرحمان 11 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، PK۔ 105 میں بھی آزاد امید وار شفیق آفریدی 19 ہزار 733 ووٹ لے کر کامیاب ٹھہرے، یہ بھی یاد رہے کہ اس حلقے سے قومی اسمبلی کی نشست پی ٹی آئی نے حاصل کی تھی اور جیتنے والے نور الحق قادری آج کل مذہبی امور کے وفاقی وزیر ہیں۔

PK۔ 106 سے آزاد امیدوار بلاول آفریدی 12 ہزار 814 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، PK۔ 107 سے آزاد امیدوار محمد شفیق 9 ہزار 796 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، 8 PK۔ 10 سے جے یو آئی (ف) کے محمد ریاض 11 ہزار 948 لے کر جیتے، PK۔ 109 سے پی ٹی آئی کے سید اقبال میاں جیتے، PK۔ 110 سے آزاد امید وار سید غازی جمال 18 ہزار ووٹ لے کر جیتے، PK۔ 111 سے پی ٹی آئی کے محمد اقبال خان 10 ہزار ووٹ لے کامیاب رہے، PK۔ 112 سے آزاد امید وار میر کلام خان 12 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ٹھہرے، PK۔ 113 سے جے یو آئی کے مولانا اعصام الدین 10 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، PK۔ 114 سے پی ٹی آئی کے نصیر اللہ خان 11 ہزار 114 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور 15 PK۔ 1 سے جے یو آئی کے محمد شعیب 8 ہزار 102 ووٹ لے کر فاتح ٹھہرے۔

فاٹا انضمام کے بعد 16 نشستوں پر ہونے والے یہ پہلے انتخابات تھے، اس لیے سوچا تھا کہ یہ چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی مگر یہ انتخابات بھی باقی کی طرح ”موروثیت بھرا چہرہ“ تاریکی کے گھپ اندھیروں میں چھپاتے نظر آئے۔ الیکشن کے نتائج بتا رہے ہیں کہ یہ معرکہ بھی ”سیاسی رشتہ داروں“ کے نام رہا۔

جیتنے والوں میں PK۔ 110 کے فاتح سید غازی جمال، غازی گلاب جمال کے صاحبزادے ہیں۔ غازی گلاب جمال سابق وفاقی وزیر و ایم این اے رہ چکے ہیں اور ان کے تایا غازی سید جمال بھی رکن قومی اسمبلی رہے ہیں۔ یعنی اس علاقے میں موروثی سیاست کی گہری ”چھاپ“ نظر آئی۔ پھر آتے ہیں PK۔ 104 سے کامیاب ہونے والے عبا س الرحمان کی جانب، جو کہ سینیٹر ہلا ل الرحمان کے بھائی ہیں اور ان کے ایک اور بھائی بلال الرحمان 2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر دوسرے نمبر پر رہے۔ PK۔ 106 سے جیتنے والے بلاول آفریدی بھی سابق ایم این اے حاجی شاہ جی گل آفریدی کے صاحبزادے ہیں۔

PK۔ 101 سے فتح کا تاج اپنے سر سجانے والے اجمل خان بھی پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی گل داد خان کے بھائی ہیں۔ گل داد خان نے پی ٹی آئی کا ٹکٹ اپنے بھائی کو دلوایا تو پی ٹی آئی ڈسٹرکٹ باجوڑ کے جنرل سیکرٹری سید احمد جان نے آزاد حیثیت سے اپنی ہی پارٹی کے امیدوار اجمل خان کے خلاف الیکشن لڑا۔ اسی طرح PK۔ 113 سے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے مولانا اعصام الدین بھی سابق ایم این اے مولانا معراج الدین کے فرزند ہیں۔ مولانا معراج الدین کی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہونے والی شہادت کی وجہ سے انہیں ہمدردی کا ووٹ بھی کافی ملا۔ ان حضرت کی کامیابی بھی موروثی سیاست کا کمال نظر آتی ہے۔

جہاں ان لوگوں کے موروثی سیاست کو فروغ دینے پر دکھ ہے وہاں یہ خوشی بھی ضرور ہے کہ بہت سارے اور خاندانی سیاست کے ٹھیکیداروں کو غیور قبائلوں نے شکست سے روشناس کروایا۔ ہارنے والوں میں PK۔ 102 سے حمید الرحمان صاحب پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ظفر گل کے برادر نسبتی ہیں۔ اسی طرح PK۔ 110 سے ہارنے والے پی ٹی آئی کے امید وار ملک شعیب حسن بھی پی ٹی آئی کے ایم این اے جواد حسین کے بھائی ہیں۔ PK۔ 109 سے ہارنے والے کرنل (ر) جاوید اللہ بھی ایم این اے ساجد حسین طوری کے چچا زاد بھائی ہیں۔ سینیٹر اورنگزیب کے بھائی عبد الشاہد بھی ہار گئے۔ PK۔ 115 سے بھی سابق ایم این اے حاجی گلستان بھٹنی کے بھائی غلام قادر بھٹنی بھی شکست سے دوچار ہوئے۔ ان انتخابات کی سب سے دلچسپ شکست PK۔ 114 میں محمد عارف وزیر کو ہوئی جو کہ اس علاقے کے ہر دلعزیز ایم این اے علی وزیر کے کزن ہیں۔

آخر میں بس اتنی گزارش کہ باقی علاقوں کے ”دھارے“ میں شامل نہ ہوتے ہوئے قبائلی لوگ اگر موروثی سیاست سے دور رہیں تو اس کے ثمرات انہیں مستقبل میں ضرور ملیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).