پاکستان میں معاملات کو تہ و بالا ہونے میں دیر نہیں لگتی


مجھے نہ تو ٹرمپ اور ٹرمپ یا عمران خان اور عمران خان کی ملاقات بارے لکھنا ہے نہ ہی میلانیا کی ام دا ڈم کے ساتھ تھوڑی سی چپکی تصویر بارے نہ ہی کسی ملک کے وزیراعظم کی چاہے اسے سیلیکٹڈ ہی کیوں نہ مانا جائے ایک بڑے ملک کے الیکٹڈ صدر کی بیوی کو نم و گرم آنکھوں سے پینے کی سعی کرنے سے متعلق کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ مرد کے ہارمون عمر کے ساتھ کم تو ہو سکتے ہیں مگر بے دم نہیں۔ لکھنے کو کیا یہی کچھ رہ گیا ہے کہ کس کی باڈی لینگویج کیا ہے؟ ارے بھائی انتہائی مضطرب دکھائی دینے والے بھی بعض اوقات مشکل مسائل کا جواب دینے اور کڑے فیصلے کرنے میں یکسر سردمغز ہوتے ہیں اور بہت ہی مضبوط اور سنجیدہ دکھائی دینے والے بھی بعض اوقات بے پر کی ہانک سکتے ہیں اور انتہائی غلط فیصلے کر سکتے ہیں۔

البتہ یہ ضرور لکھنا چاہیے کہ دو ملکوں کے درمیان موجود مسئلے کو حل کرنے میں اگر اقوام متحدہ کامیاب نہیں ہو سکی تو بہت زیادہ دور بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کے درمیان پھنسے ملک کا ایک غیر معقول صدر بھلا اس ضمن میں کیا معاونت کر سکتا ہے۔ ایک غیر معقول رہنما ہی دوسرے غیر معقول رہنما سے ایسی غیر معقول درخواست کر سکتا ہے۔

پہلے توکوئی یہ بتا دے کہ کیا گذشتہ چوہتر برسوں میں یعنی 1945 میں ہیروشیاما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد سے اب تک امریکہ نے کہیں بھی تشدد برتے بن کوئی بھی مسئلہ حل کرایا ہے۔ اگر نہیں تو اس سے ایسی بات کہنے کی کوئی تک نہیں تھی۔ چلیں درست کہ یہ پیشکش ٹرمپ نے خود کی، تو اس کی فوری تصدیق کی کیا ضرورت تھی۔ کسی کو اپنے معاملات میں ڈالنے کا مطلب معاملہ بگاڑ لینے کے مترادف نہیں ہوتا کیا۔

اگر کوئی اس معاملے میں کسی حد تک ممد ہو سکتا ہے تو وہ روس اور وسطی ایشیائی ملک ہو سکتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ہی شنگھائی تنظیم تعاون کے رکن ممالک ہیں جس میں روس بھی ہے اور چین بھی۔ امریکہ نے بھی اس علاقائی تنظیم میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر اسے باور کرا دیا گیا تھا کہ ”تو کون، میں خواہ مخواہ“ نہ بنے۔

پھر ایک طرف تو آپ نے فوکس نیوز کو دیے گئے ٹیلی انٹرویو میں فرمایا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستان میں جاسوس خیال کیا جاتا ہے، یہ بھی تسلیم کیا کہ امریکہ کا، پھر کہا ہم تو دوست ملک تھے اور ہیں یعنی آپ جناب کے خیال میں اسرائیل میں امریکہ کے اور امریکہ کے اسرائیل میں جاسوس نہیں ہوتے۔ دوسری ہی سانس میں کہہ دیا کہ اگر عافیہ صدیقی کے ساتھ ادلے بدلے کی بات ہو سکتی ہے تو ہم کرنے کو تیار ہیں۔

دنیا جانتی ہے اگر آپ جناب وزیراعظم چاہے سیلیکٹڈ ہی سہی عمران احمد خان نیازی صاحب نہیں جانتے تو کوئی کیا کر سکتا ہے کہ تبادلے جاسوسوں کے ہوا کرتے ہیں جبکہ عافیہ صدیقی نام کی خاتون امریکہ کی نظر میں جاسوس کبھی نہیں تھی البتہ دہشت گرد ضرور تھی جس کو انہوں نے اسی جرم کے تحت سزا سنائی اور وہ بھگت رہی ہے جبکہ مبینہ طور پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تعلق دہشت گرد مخالف قوت کے ساتھ رہا۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مجرم اور جاسوس یکساں ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو جناب اپنے ملک کا کاوؑنٹر انٹیلیجنس کا شعبہ ہی بند کر دیجیے۔

آپ نے بیس ہزار افراد کی گنجائش والے واشنگٹن ایرینا میں مینار پاکستان کے نزدیک کیے جیسے جلسے میں شاہ محمد قریشی کی ولولہ خیز اور اپنی دھمکیوں سے پر تقریر والا جلسہ کر لیا تو آپ نے کیا امریکہ کو زیر کر لیا۔ امریکہ آپ سے وہی کام لے گا جو وہ چاہے گا۔ آپ نہ کہہ کے تو دکھائیں۔

البتہ ایک بات تسلی آمیز رہی کہ آپ کا فوکس نیوز کے اینکر پرسن بریٹ بائیر کو دیا گیا انٹرویو بہتر رہا کیونکہ آپ اس کی جانب سے کیے گئے سوال کے جواب میں اسے یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ”حامد مجھے یہ بتاوؑ۔۔۔“۔ شکر ہے امریکی اینکر پرسن نے آپ کو یہ باور کرا دیا کہ سوال کا جواب دیا جاتا ہے، سوال کے جواب میں سوال کرنے والے سے الٹا سوال کیا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے پاس کیے گئے سوال کا جواب نہیں ہے۔

آپ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ آپ نے جھنجھلائے بن اور کسی لفظ پر بے جا زور دیے بغیر اس کے سوالوں کا جواب دیا۔ لگتا ہے آپ نے بالآخر سیاست سیکھنا شروع کر دی ہے۔ اگر سیکھنا جاری رکھا تو ممکن ہے لوگ آئندہ انتخابات میں شاید آپ کو واقعی الیکٹ کر لیں۔

مگر ایسا لگتا نہیں ہے کیونکہ یاوگور گائیدر کی وضع کردہ شاک تھیراپی سوویت یونین سے آزاد ہوئے روس میں تو چل پائی تھی اگرچہ اس کے اثرات بہت برے رہے تھے۔ بوڑھے سڑکوں پر گھر کی چیزیں بیچنے پر مجبور ہوئے تھے۔ لڑکیاں جسم فروشی کرنے لگی تھیں اور نوجوان مجرمانہ گروہوں کا حصہ بن گئے تھے۔ کوئی دس برس یہ تکلیف دہ صورت حالات رہی تھی۔ وہ تو بھلا ہو وہاں کی واقعی محب وطن خفیہ ایجنسی کا کہ جس نے اپنا نمائندہ پوتن آگے کر دیاتھا اور معاملات سنبھالے تھے لیکن جو پاکستان میں ہو رہا ہے اسے ہمارے آوے ای آوے، جاوے ای جاوے کے نعرے لگانے والے اور ٹائر جلانے کے ساتھ ساتھ ڈنڈوں اور سریوں سے گاڑیوں کے شیشے توڑنے والے عوام آئندہ چار برس برداشت نہیں کریں گے۔

جونہی میزیں الٹیں گی سب اور طرح ہو جائے گا۔ اس ملک میں طرب و بلا کو مدغم ہوتے دیر نہیں لگا کرتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).