سویلین اداروں کے فوجی سربراہ


\"irfan\"فوجی حضرات سویلین اداروں میں آ کر کتنی اہلیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کے گواہ ہر جگہ مل جائیں گے۔ یہ حضرات ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بھی سویلین ادارے میں بغیر مطلوبہ تعلیم اور تربیت کے سربراہی کے عہدہ پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ اور پھر اپنے سے زیادہ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ادارہ کیسے چلے گا۔

لیکن کچھ کام تو بہرحال سیکھنا ہی پڑتا ہے۔ کام سیکھنے کا ان کا انداز بھی ایک قابلِ دید نظارہ ہوتا ہے۔ کام ایسے سیکھتے ہیں جیسے دوسرے کی غلطی نکال رہے ہوں۔ یہ صاحبان کرتے یوں ہیں کہ اپنے سے زیادہ تجربہ کار سینئر ماتحت کو اپنے سامنے بٹھا کر اسے کچھ آئیڈیاز دیتے ہیں، پھر اس کی رائے مانگتے ہیں، جواب میں ملنے والی رائے اکثر ان کے تخیلاتی اور غیر حقیقی آئیڈیاز کے خلاف ہوتی ہے، لیکن صاحب چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ان کے نادر خیالات میں کچھ ترامیم سے زیادہ تجویز کرنے کی جرات نہ کی جائے، اپنی رائے کا مکمل مسترد ہونا وہ برداشت نہیں کرتے۔ پھر اگر مشورہ اپنی مرضی کا نہ ملے تو ہر حال میں اپنی ہی سکیم نافذ کر دیتے ہیں۔ پھر جب اس کے نتائج غلط آنے لگتے ہیں تو یہ کہ کر پالیسی بدلتے ہیں کہ لوگ نالائق ہیں، ان آئیڈیاز کے لیے ان میں مطلوبہ کمٹمنٹ ہے نہ قابلیت۔ ان بلڈی سویلنز کو ایسے ہی چلنے دو۔ اب ایسی اندھی وفاداری اور بلا چوں چرا قسم کی فرمانبرداری تو فوج میں ہی ممکن ہے اور وہاں ہی 71 اور 98 وغیرہ جیسے معرکے برپا کیے جا سکتے ہیں، جن کی ناکامی پر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ لیکن یہاں سویلین اداروں میں ایسا نہیں ہوتا، یہاں ہر غلطی منہ کو آتی ہے۔

ادارے چلانے کی ان کی دوسری سب سے بڑی انتظامی پالیسی وقت کی بے لچک پابندی ہوتی ہے۔ ملازمین کے آنے اور جانے کی سخت نگرانی اور باز پرس کی جاتی ہے۔ ایک ایک منٹ کا حساب ہوتا ہے ۔ نالائق ترین ملازم بھی اگر مقررہ وقت سے پہلے آتا ہو تو مقررہ وقت کے بعد جاتا ہو تو بلا کسی اضافی میرٹ کےان کی گڈ بکس میں آ جاتا ہے۔ کام کے معیار سے زیادہ وقت پر آنا جانا ان کے لیے ادارے کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔

تیسری عظیم انتظامی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ اپنی پرائیویٹ خفیہ ایجنسی تشکیل دیتے ہیں۔ ادارے کے ملازمین میں سے کچھ کو اپنا قرب عطا کر کے انہیں اپنا محرم راز بنا لیتے ہیں، اور دوسرے ملازمین کی ریکنگ پر لگا دیتے ہیں ۔ جو افراد ٹاؤٹ بننا منظور کرتے ہیں وہ اکثر نالائق ہوتے ہیں، جو اپنی قابلیت کی بجائے بوٹ پالش کر کے اپنی نوکری بنائے رکھنے میں کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ چناچہ ادارے کی فضا جو پہلے باہمی تعاون اور برابری کی بنیاد پر بنی ہوتی ہے، اب ایک دوسرے پر بد اعتمادی اور ذاتی بقا کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی مسموم فضا میں بدل جاتی ہے۔

دوسری طرف قابلیت رکھنے والے ملازمین میں ایک طرح کی خود اعتمادی اور بے نیازی ہوتی ہے۔ ایسے خوددار قسم کے لوگ فوجی باس کو عموماً بھاتے نہیں۔ ان کے ساتھ ان کا سلوک ایسا ہوتا ہے جیسے وہ را کے خفیہ ایجنٹ ہوں جو ان کے خلاف سازشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر وقت ان کو نکّو بنانے اور ان پر اپنی ذہنی اور انتظامی برتری جتانے کے لیے ممکنہ حربے استعال کیے جاتے ہیں۔ ان قابل لوگوں کے لیے زمین تنگ ہونے لگتی ہے۔

انتظامی قابلیت کا چوتھا مظاہرہ یہ ہوتا ہے کہ صفائی ستھرائی کا اعلی انتظام کیا جاتا ہے۔ گملے اور کیاریوں کی تیاری اور گھاس کی کٹائی میں میں نہایت نفاست برتی جائے۔ لیکن محکمے کے حقیقی مسائل کا درست ادراک کبھی یہ کر نہیں پاتے۔ اپنی غلطیوں کی وجہ کبھی جاننا نہیں چاہتے، اکثر سویلین محکمہ جات، ان کی سربراہی میں آنے کے بعد پہلے سے بری کارکردگی دکھاتے ہیں، لیکن یہ کبھی بھی اسے اپنی نالائقی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اس کی ایک تازہ مثال عرض کرتا ہوں۔

جامعہ نمل اسلام آباد، جو کہ آرمی کے ماتحت کام کرتی ہے، کی طرف سے واک ان انٹرویو کا اشتہار دیا گیا جس میں مختلف شعبہ جاتے کے پروفیسر سے لے کر لیکچرر تک کے انٹرویوز کیے جانے تھے۔ اشتہار دیکھا تو معلوم ہوا کہ تمام کے تمام افراد کو ایک ہی دن یعنی 22 اگست 2016 کو ایک ہی وقت یعنی دس بجے انٹر ویو کے لیے بلایا گیا تھا۔ عام فہم بات ہے کہ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں امید وار آنے کی توقع کی جا سکتی تھی۔ لیکن اشتہار دیتے وقت لگتا ہے کہ اس بدیہی حقیقت کو نظر انداز کر دیا گیا تھا کہ سب کو ایک ہی وقت بلا کر ایک ہی دن میں اتنے سارے لوگوں کا انٹر ویو کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم دینے والوں نے اشتہار دے دیا۔

انٹرویو والے والے دن نمل میں میلے کا سماں تھا۔ مقامی لوگوں کے علاوہ لوگ شہر سے باہر سے تعلیم یافتہ افراد چھٹیاں لے کر آئے ہوئے تھے۔ چونکہ صبح کے وقت بلایا گیا تھا اس لیے کچھ لوگ ہوٹلوں میں رات قیام کرکے صبح صبح انٹرویو کے لیے پہنچے تھے۔ مقامی امید واران بھی شام بلکہ رات تک کا بندوبست کر کے آئے تھے کہ جانے کب باری آئے۔

امید واران کا اتنا رش دیکھ کر تجربہ کار، سفید بالوں والے آرمی آفیسران کا وہی حال ہوا جو 1965 کی جنگ میں ہوا تھا۔ یعنی جس طرح کشمیر میں ان کی کارروائی کے جواب میں ان کے خلافِ توقع بھارت نے پاکستان کے ساتھ ملحقہ سرحد پر حملہ کر دیا تھا، اور یہ حواس باختہ ہو گئے تھے، اسی طرح انٹرویو کے لیے آنے والے امیدواران کی نفری دیکھ کر انہیں احساس ہوا کہ ان کی انٹرویو لینے والی بٹالین ان کے مقابلے کے لیے ناکافی ہے۔ ادھر بے چارے امید واران اپنے اصلی ڈگریوں کے ہمراہ گھنٹہ دو گھنٹے یوم حشر کی طرح حساب کتاب کے شروع کروانے کے لیے ادھر ادھرمارے مارے پھرتے رہے، کہ پھر اچانک اعلان ہوا کہ انٹرویو منسوخ کر دیے گئے ہیں، امیدواران کو ہدایت کی گئی کہ کاغذ کے ایک پرزے پر اپنے کوائف لکھ کر واپس تشریف لے جائیں، دو دن بعد شارٹ لسٹ کر کے بلا لیا جائے گا۔ کاغذ کا وہ پرزہ جو کوائف درج کرنے کے لیے مہیا کیا گیا ،نہات خستہ کاغذ پر چھپا ہوا فارم تھا، جس پر جگہ جگہ مس پرنٹنگ تھی۔ فارم میں سارے کوائف کے خانے ہی نہیں تھے۔ تعلیم اور تجربہ کے لیے جگہ اتنی نہیں تھی کہ تفصیل لکھی جا سکتی، چھَپنے والے مقالہ جات کے اندراج کا خانہ تھا ہی نہیں۔ تاہم امیدواروں، جو اب ناامیدواران تھے، نے یہ بھی جیسے تیسے بھر دیا۔ کہ شاید کال کر کے بلا ہی لیا جائے۔ بہرحال، بتایا گیا کہ دو دن بعد کال کر کے بلایا جائے گا۔ لیکن وہ دن نہیں آیا، کسی کو نہیں بلایا گیا۔ افسوس یہ کہ کسی نے شکایت تک نہیں کی، یہ سوچ کر کہ کہیں بلیک لسٹ نہ ہو جائیں، اور یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی نہ لگ جائے۔

بس

سبھی کو جان تھی پیاری سبھی تھے لب بستہ
اک فراز تھا ظالم سے چپ رہا نہ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments