امریکہ کے منتخب نمائندوں کی پاکستان کے بارے میں رائے


وزیر ِ اعظم پاکستان کا دورہ امریکہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ سب کی خواہش ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کی کی تنہائی ختم ہو۔ خواہ امریکہ ہو یا چین یا روس، اِس وقت ہر بڑی طاقت سے اچھے تعلقات رکھنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ شاہ محمود قریشی صاحب کا بیان سامنے آیا کہ اب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں نیا آغاز ہو رہا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پایسی میں اس وقت تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی جب تک اپنی پوزیشن کا صحیح اندازہ نہ ہو۔

اس جائزے کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں لیکن ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ امریکہ کے منتخب نمائندے یعنی ان کی سینٹ اور ایوان ِ نمائندگان کے اراکین پاکستان کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں؟ امریکہ کی کوئی پالیسی قائم نہیں رہ سکتی جب تک اسے سینٹ اور ایوان ِ نمائندگان کی اراکین کی بڑی تعداد میں حمایت حاصل نہ ہو۔ اس سلسلہ میں امریکہ کے دو ایوانوں میں سے صرف ایک ایوان یعنی ایوان ِ نمائندگان سے چند جھلکیاں پیش ہیں۔

اس سلسلہ میں ایک مرحلہ 6 فروری 2018 کو امریکہ کے ایوان ِ نمائندگان کی سب کمیٹی برائے ایشیا و بحرالکاہل کی ایک میٹنگ تھی۔ اس اس کا ایجنڈا ہی یہ تھا کہ امریکہ کے پاکستان سے تعلقات کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ اس میٹنگ کے آغاز میں ہی سب کمیٹی کے صدر ٹیڈ یوہو نے واضح کیا کہ امریکہ اورپاکستان کی ترجیحات ایک نہیں ہیں۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں دہشت گردی ختم نہیں کرنا چاہتا اور ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں دریافت ہوا تھا۔

پاکستان افغانستان میں ایسی حکومت چاہتا ہے جسے وہ کنٹرول کر سکے یا یہ کہ افغانستان میں سرے سے کوئی حکومت نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو ہندوستان اور افغانستان پر حملہ کرنے کے لئے راستہ دیتا ہے۔ پھر چین اور پاکستان کے تعلقات کا ذکر کر کے کہا کہ جیسا کہ پہلے ہی شک تھا سی پیک کا اقتصادی منصوبہ عسکری رنگ اختیار کر لے گا۔ اب چین اعلان کیا ہے کہ وہ جبوتی کے بعد اپنی دوسری سمندر پار فوجی تنصیبات گوادر کے مقام پر قائم کرے گا۔

اس کے بعد سب کمیٹی کے سب ممبران نے ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان کی مخالفت میں بیانات پڑھے۔ اس سب کمیٹی نے چار ماہرین کو رائے دینے کے لئے بلایا تھا۔ ان میں سے دو امریکہ میں مقیم پاکستانی ماہرین تھے۔ ان دو ماہرین یعنی منور صوفی لغاری صاحب اور ڈاکٹر عقیل شاہ صاحب کی رائے امریکی ماہرین سے بھی زیادہ پاکستان کی پالیسیوں کے خلاف تھی۔ لیکن ان کو فوراً ’غدار‘ کا نام دینا بالکل غلط ہوگا۔ ہمیں ٹھنڈے انداز میں ان کے تحفظات کا جائزہ لینا چاہیے۔ البتہ ایک امریکی ماہر ڈاکٹر سیتھ جونز نے اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آئی ہے جبکہ افغانستان میں یہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اور دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ اس کی جی ڈی پی تین سو ارب ڈالر ہے ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔

اس سال 3 جنوری 2019 کو ریپبلکن ممبر اینڈی بگز نے ایک بل ِ ایوان ِ نمائندگان میں پیش کیا کہ ایک غیر نیٹو اہم اتحادی کے طور پر پاکستان کی قانونی حیثیث ختم کی جائے اور صدر امریکہ اس تصدیق کے بغیر پاکستان کی یہ حیثیث بحال نہ کرے کہ پاکستان اب حقانی نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گا ہ مہیا نہیں کر رہا اور نہ اب یہ نیٹ ورک پاکستان سے دوسرے ممالک میں دہشت گردی کر رہا ہے۔ یہ بِل اب خارجہ پالیسی کمیٹی کی طرف بھجوایا گیا ہے۔ اور سینٹ اور ایوان ِ نمائندگان دونوں میں پیش کیا جائے گا۔

جب فروری 2019 میں پلوامہ میں بھارتی فوجیوں پر حملہ ہوا تو اس کی مذمت کے علاوہ اس بارے میں 27 مارچ 2019 کو امریکہ کے ایوان ِ نمائندگان میں ریپبلکن نمائندے سکاٹ پیری نے ایک قرارداد پیش کی جسے متعلقہ کمیٹی میں بھجوایا گیا۔ شروع سے آخر تک یہ ساری قرارداد پاکستان کے خلاف نکات پر مشتمل تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان سے کام کرنے والی تنظیم ’جیش ِ محمد‘ نے اس حملہ ذمہ واری قبول کی ہے۔ اور پاکستان جان بوجھ کر جیش ِ محمد، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک جیسی دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہ مہیا کر کے بین الاقوامی دہشت گردی کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔

بھارت اور امریکہ فوجی حکمت ِ عملی اور دہشت گردی کو قابو کرنے کے لئے ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنی زمین سے دہشت گردی کی اجازت نہ دے۔ اس کے بعد 23 مئی کو اسی قسم کی ایک قرارداد ڈیموکریٹ ممبر شرمین اور دو اور ممبران نے پیش کی جس میں کہا گیا کہ اس حملہ کی ذمہ دار ’جیش ِ محمد ”ہے اور پاکستانی وزیر ِ خارجہ شاہ محمود قریشی اعتراف کر چکے ہیں کہ اس کے سربراہ اظہر مسعود پاکستان میں موجود ہیں۔ اس میں عظم کا اظہار کیا کہ امریکہ اور بھارت کا اتحاد ایشیا اور دنیا میں امن کا باعث ہوگا۔

صرف ڈیڑھ ماہ قبل 13 جون کو امریکہ کے ایوان ِ نمایندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کا اجلاس میں ہوا جس میں جنوبی ایشیا میں امریکہ کی پالیسی کا جائزہ لیا گیا۔ اس خطے کو امریکہ کے لئے بہت اہم قرار دیا گیا لیکن شروع میں ہی اس کے صدر شرمین نے کہا کہ پاکستان امریکہ کی سیکیورٹی اور افغانستان میں امن کے لئے ضروری ہے لیکن پاکستان متحدہ افغانستان سے خوفزدہ ہے اور بھارت اور افغانستان پر حملہ کے لئے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گا ہیں مہیا کر رہا ہے۔ اگر ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کر لیا جائے تو افغانستان کے بارے میں اس رویے میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ بعد میں ماہرین نے بھی اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان کی حکومت کو دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہیے۔ اور امریکہ اور بھارت کے اتحاد کی اہمیت پر زور دیا۔

یہ ریکارڈ اور وڈیوزامریکی کانگرس کی سائٹ https://www.congress.gov پر موجود ہیں۔ گذشتہ ایک سال کی کارروائی پڑھ جائیں، آنکھیں ترس جائیں گی پاکستان کے لئے کوئی کلمہ خیر نہیں نظر آئے گا۔ اوَل تو بھارت اس کے لئے تیار نہیں لیکن اگر اس پس منظر میں امریکہ ثالثی کر بھی لے تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ یہ سوچنا ضروری ہے کہ جب پاکستان کے متعلق یہ تاثر قائم ہو چکا ہو تو ہم اپنی خارجہ پالیسی کس طرح کامیابی سے چلا سکتے ہیں؟

اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ سال چھ ماہ بعد ایک دھماکہ کرنے سے بھارت کشمیر سے رخصت ہو جائے گا۔ لیکن یہ کارروائیاں بھارت کا نقصان کرنے کی بجائے پاکستان کا نقصان زیادہ کر رہی ہیں۔ یہ دھماکے نریندر مودی صاحب کی حکومت کو پلیٹ میں رکھ کر وہ مصالحہ فراہم کر رہے ہیں جس کو استعمال کر کے پاکستان کی پوزیشن کو کمزور اور بھارت کی پوزیشن کو مضبوط کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اب کچھ طوق اپنے گلے سے اتارنے ہوں گے۔ یہ تحفظات صرف امریکہ کے نہیں ہیں۔

ممالک کی ایک لمبی فہرست انہی تحفظات کا اظہار کر چکی ہے۔ صرف اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان میں اپنے انخلاء کے لئے امریکہ نے پاکستان کی مدد لی ہے، یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کے بارے میں امریکہ کے منتخب نمائندے کیا رائے رکھتے ہیں؟ اس رائے کو بدلنے کے لئے ہمیں اپنی غلطیاں بھی درست کرنی ہوں گی اور ان منتخب نمائندوں تک اپنا موقف بھی بار بار پہنچانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).