ہماری عید کیا واقعی عید ہے؟


\"benish\"ابھی کچھ دیر پہلے فیس بک پر ایک تصویر نظر سے گزری جس میں ایک بچہ بکرے کے گلے پر چھری پھیر رہا ہے، والد بڑے فخر سے اسے دیکھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ سیلفی بھی لے رہا ہے، اس تصویر کو ڈھیروں ڈھیر لائکس ملے اور کئی کمنٹس بھی آئے لیکن میری نظر بچے کے ہاتھ میں موجود اس چھری پر جم کر رہ گئی۔

اس عید پر میں ایسی کئی چیزوں کا مشاہدہ کیا جو شاید پہلے نہیں کیا، عید سے دس روز قبل جو اپنے گھر قربانی کا جانور لے آئے وہ جانور زبانِ بے زبانی میں بس اللہ میاں سے شکوہ ہی کرتے نظر آئے کہ یا اللہ ہم نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جو ہمارے گلے کس کے باندھنے کے بعد ہمیں گلیوں میں اس طرح بھگایا جا رہا ہے۔ ہمیں اس طرح سے گھسیٹا جارہا ہے جیسے ہم کسی ایسی سیاسی جماعت کے کارکن ہوں جس کے خلاف حکومت وقت اور فوج بھی ہو!

یہ تو بے چارے قربانی کے جانوروں کے دکھی دل کی آواز تھی

لیکن بحیثیت والدین ہمارا کیا فرض ہے؟

ہم جہاں سال کے 364 دن بچوں کو سکھاتے ہیں کہ کسی سے بدتمیزی نہ کرو، سب کے ساتھ رحم دلی سے پیش آؤ اور ہم ہی بڑی عید کے دن ہاتھ میں چھرے لئے گائے اور بکروں کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ ہم سے بڑا کوئی وحشی اس دنیا میں نہیں ہوگا تو غلط نہ ہوگا، جانور بے چارا ہلکان ہوجاتا ہے لیکن ان بچوں کو نہ کوئی روکنے والا ہوتا ہے نہ کوئی ٹوکنے والا۔

اللہ اللہ کر کے عید قرباں کے روز جانوروں کو قربان کر کے ہم تو اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں لیکن کہانی ابھی یہاں ختم نہیں ہوئی

یہاں سے گھر کی خواتین کا رول شروع ہوتا ہے جو پہلے سے ہی فریج اور ڈیپ فریزر کی صفائی کر کے رکھتی ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ گوشت اسٹور کر سکیں۔

یہ بات میرے عام مشاہدے میں ہے کہ گھر میں بکرا آئے یا گائے سب کا سب فریزر کی گود بھرائی میں استعمال ہوتا ہے۔

میری بات سے کئی لوگ متفق نہیں ہوں گے اور یہی کہیں گے کہ نہیں جی یہ گوشت تو غریبوں کو دینے کے لئے ہوتا ہے مگر اگر ایسا ہے تو پھر کیا واقعی ہم نے اللہ کی راہ میں قربانی کا فریضہ بہتر طریقے سے انجام دیا ہے؟

پھر بھی اگر میری بات پر یقین نہیں تو اپنا فریزر کھول کر تسلی کر لیجئے کہ یہ گوشت پڑوس سے آیا ہے یا پھر آپ کے بکرے کا ہے جسے آپ اگلے چھہ ماہ تک رکھ رکھ کے آپ کھانے والے ہیں!

بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی، اس وقت شہر شہر گلی گلی گائے اور بکروں کی اوجھڑیوں سے سجی ہوئی ہیں اور وہ تعفن اور بدبو ہے کہ الامان و الحفیظ۔

کراچی کی شہری انتظامیہ نے اس سال صرف 8 سرکاری مویشی منڈیاں لگانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن ماشاللہ ہر گلی میں ہی منڈی لگی نظر آئی، اور تو اور جانوروں  کو ذبح کرنے کے بعد ان کی آلائشیں ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا جس کے باعث شہری بیمار پڑ رہے ہیں۔ شہری انتظامیہ تو اپنا کام کر رہی ہے لیکن کیا کیجیے کہ جانوروں کی آلائشیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ یہ بدبو دار آلائشیں اتنی خطرناک ہیں کہ اگر سانس کی بیماری میں مبتلا کوئی شخص اس فضا میں سانس لے تو اس کا سانس لینا محال ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں ان آلائشوں سے گزرتی ہوا اگر آپ کی جلد سے ٹکرائے تو جلد میں خارش ہو جاتی ہے۔

کئی سال پہلے میں نے دبئی میں عید کی تھی، وہاں تو جانور تو کجا اس کا خون اور کھال تک نظر نہ آئی ہاں گلے ملتے لوگ ضرور دکھائی دیے۔ یہی چیز میں نے عراق اور ایران میں بھی دیکھی جہاں الگ الگ سلاٹر ہاوس بنائے گئے ہیں۔ اور تو اور سعودی عرب کی سڑکیں بھی میں نے کبھی خون سے رنگی ہوئی نہیں دیکھیں۔

تو کیا ہم ترقی یافتہ نہیں؟ یا پھر ہمیں تب تک تسکین نہیں ملتی جب تک جانور کا خون گلیوں میں بہتا نہ دیکھیں؟ جیسے ابھی دو دن قبل ڈھاکہ کی سڑکوں پر بہتا دکھائی دیا۔

کئی سال پہلے الخدمت فاونڈیشن کی طرف سے سلاٹر ہاوس بنایا گیا تھا جو انتہائی کامیابی سے چل بھی رہا ہے اور وہاں جانے والے لوگ گواہ ہیں کہ وہاں کتنی صفائی سے کام ہوتا ہے۔ یہی نہیں ڈیفنس کی امام بارگاہ یثرب میں بھی یہی انتظام متعارف کرایا گیا ہے جو سعودی عرب، دبئی اور دیگر ممالک میں رائج ہے کہ جانور خریدیے اسے وہیں رکھیے وہیں ذبح کیجیے اور جتنا گوشت لے جانا ہے لے جائیے باقی مستحقین میں بانٹ دیجیے۔

یہ تو بات تھی دو فرقوں کی لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اگر اچھی چیز ہے اور بات دل کو بھلی لگ رہی ہے تو اپنا لینا چاہیئے؟

عید تو سب ہی منارہے ہیں لیکن کیا ضروری ہے کہ  وحشیانہ طرز زندگی ہی اختیار کیا جائے؟

اگر بے زبان جانوروں کو قربان ہی کرنا ہے تو انہیں سہولت سے قربان کیوں نہ کیا جائے؟  کیونکہ قربانی کا گوشت اور خون تو ربِ عظیم کی بارگاہ میں نہیں جاتا صرف ہمارا تقویٰ ہی جاتا ہے تو پھر کیوں اس کے خون، گوشت اور باقیات کو اس طرح سڑکوں پر چھوڑ دیا جائے۔ ایسا کر کے ہم کچھ حد تک مہذب قوم ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments