نئی مجلسوں میں پرانے لوگ


زندگی میں سب کچھ نیا ہی ہوتا ہے۔ زندگی گزارنی ہے تو نئے کام سیکھے بنا چارہ نہیں۔ اور زندگی چونکہ مسلسل کچھ نیا دکھاتی رہتی ہے اس لیے مسلسل سیکھتے رہنے بنا بھی گزارہ نہیں۔ سکھانے والے استاد بھی سیکھنے کا عمل الف انار ب بکری سے ہی شروع کرتے ہیں۔ ان اساتذہ سے سیکھنے والے بچوں کا آغاز بھی الف ب سے ہی ہوتا ہے اور گاہے استادوں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ زندگی سے البتہ ملے ہوئے کچھ سبق جو عمر کے بیتتے ماہ و سال سکھاتے ہیں وہ استاد کے پاس ہوتے ہیں۔ شاگرد کو یہ آگہی اپنے وقت پر حاصل ہوتی ہے۔ ہر ایک کا سٹارٹنگ پوائنٹ ہوتا ہے۔ جب روزانہ کچھ نیا سامنے آ رہا ہو تو سٹارٹنگ پوائنٹ بھی روزانہ نیا ہو گا۔

جس کو لگتا ہے وہ سب سیکھا ہوا ہے اس سے بچے بنا بھی چارہ نہیں۔ اس سے ڈرنا بچنا چاہیے جو کانوں اور آنکھوں سے زیادہ زبان کے استعمال کا شائق ہو۔ اول الذکر اکتساب کی راہوں کے اولیں نقیب ہیں۔ آخر الذکر خطیب کی شمشیر جس کی بنیادی صفت بہرحال کشتوں کے پشتے لگانا ہی ہے۔ الا کہ اس کے دستے پر کسی گداز قلب اور روشن دماغ کا کنٹرول ہو۔ دل گداز اور دماغ روشن سیکھنے پڑھنے سے ہوتے ہیں۔ ہم دلی کسی کی کہانی سننے سے دل میں گھر کرتی ہے۔ کہانی سننے کے لئے آنکھوں اور کانوں سے عصبیت اور نفرت کے پردے ہٹانے پڑتے ہیں۔

جامد سوچیں جوہڑ کے ٹھہرے پانی جیسی، کبھی نہ کبھی کائی ذدہ اور بیکار ہو کر رہتی ہیں۔ اس گھڑی بے ضرر بھی ہیں تو بے سود اور اگر مسموم ہیں تو پھر بے سود ہی نہیں مضر بھی۔ ضد جمع جہالت جمع تعصب جمع نفرت جمع جو مرضی اسی قسم کا مسالہ ڈال لیں اس سے بدمزہ پکوان ہی بنے گا۔ بیچ بیچ روح کیوڑے یا عرق گلاب کے چھینٹے دینے اور زعفران چھڑکنے سے ذائقے خوشبو میں فرق نہیں پڑے گا۔

ایسے مظاہر سوشل میڈیائی بیٹھکوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ بات مگر کچھ عرصہ پہلے معلوم نہ تھی۔

سوشل میڈیا ہمارے لیے نئی چیز تھی۔ ہمارے لیے مطلب میری نسل کے لیے جو اب چالیس کی دہائی کے وسط میں ہے یا تھوڑا آگے نکل گئی، پینتالیس پچاس برس والے۔ کہیں بال اڑے ہوئے تو کہیں پورے لیکن سفیدی جا بجا جھلک دکھلاتی ہوئی۔ ہم نے اس بیٹھک میں بیٹھنا شروع کیا تو گفتگو کے انہی آداب اور طور طریقوں سے واقف تھے جو ہم نے دیکھے یا سیکھے۔

سماجی سیاسی موضوعات پر آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنا سیکھی تھیں۔ بات کرنے سننے والوں پر ایک دوسرے کی بدن بولی آشکار ہوتی تھی۔ کھا پی بھی رہے ہوتے تھے، گپ شپ بھی چل رہی ہوتی۔ گالم گلوچ بھی ہوتی تو لہجے بتاتے کہ یہ وہ گالی نہیں جس کے پیچھے دل کا رنگ کالا ہوتا ہے۔ یہ تو بے تکلفی کا ایک رنگ ہے۔ گالی بکتے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور شرارت بھی چھب دکھا رہی ہوتی۔ گو ہمارے ہم نشیں مرزا کے محبوب تو نہ ہوتے تھے لیکن ایسے بہر طور تھے کہ آج بھی ان کے لبوں کی شیرینی کا قصیدہ پڑھ کر رقیب کی قسمت پر رشک کر سکتے ہیں کہ گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا۔

آمنے سامنے بات میں فرار کا آپشن بھی نہیں تھا۔ برا بھلا جواب دینا بنتا تھا۔ موضوع پر بھی توجہ رہتی تھی۔ کوئی آئیں بائیں شائیں کرتا تو ساتھ والے ہائیں ہائیں یا اوئے ہوئے کر کے پٹڑی پر چڑھا دیتے۔ جو بات ہوتی سامنے ہوتی، سرگوشی کو آداب محفل کے خلاف بتایا گیا۔ فریقین بہت سے مفروضوں پر ایک دوسرے کو کافر، غدار، ذہنی غلام، پٹواری، یوتھیئے، وغیرہ نہیں کہتے تھے۔

ایسا نہیں کہ اس وقت لوگ مختلف مکاتب فکر یا سیاسی تنظیمموں اور رہنماؤں سے وابستگی نہیں رکھتے تھے۔ لیکن وہ اپنے سے مختلف وابستگیوں کے حامل محلے داروں، رفقائے کار، دوستوں اور رشتہ داروں کی زندگی کی داستانوں سے بھی آگاہ ہوتے تھے۔ اپنے خیال، عقیدے اور پسند ناپسند کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے بھی ان کی نظروں سے مخالف سوچ والے کی جدوجہد اوجھل ہوتی تھی نہ ہی اسے کم تر گردانتے تھے۔

ذہن میں گفتگو کے ان آداب کو لئے ہم پرانی بیٹھکوں سے نکلے اور مارک زوکر برگ کی بنائی آفاقی بیٹھک کے ایک گوشے میں آ کر بیٹھ گئے۔ ابتدائی ردعمل سے ٹھٹھک کر رہ گئے۔ یہاں پیار، توجہ، نفرت، بغض، حسد، سب کچھ کا تجربہ ہوا۔ لیکن اکثر جو ردعمل ملا اپنے حساب سے سطحی تھا اور مفروضوں پر مبنی تھا۔ غلطی اپنی تھی، یہ نئے زمانے کی بیٹھک تھی یہاں آداب جدا تھے۔ ہم سمجھے مکاں بدلا ہے۔ تجزیے میں کسر رہ گئی، زماں بھی اور تھا۔ اس جہاں میں انگیجمنٹ کیسے ہو، اس پر بات ہو رہی ہے، ہوتی رہے گی۔ مگر یہ پہیہ اب الٹا نہیں گھومے گا۔ زندگی گزارنی ہے تو بدلتے ڈھنگ اور نئے انداز سیکھنے ہوں گے۔

نیا سیکھنے سے پہلے سیکھے ہوئے کو بھلانا یعنی unlearn کرنا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ برتن میں مزید کی گنجائش پیدا ہو۔ تو انلرن کرنے کے اس عمل میں ایک ادراک یہ ہوا کہ آج پڑھنے کا سٹینما کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ حیران کن مشاہدہ یہ بھی کہ بولنے اور لکھنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید آسانی سے ناظرین، سامعین اور قارئین کی دستیابی ہے۔ فیڈ بیک فوراً ملتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہے۔ فیڈ بیک دینے والے گمنامی کا فائدہ اٹھاتے یا با آسانی شناخت نہ کیے جانے کے احساس کے زیر اثر وہ زبان استعمال کرتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں جس کا تصور بھی رو در رو نہیں ہوتا۔

کسی کی شخصیت اور بات کے سیاق و سباق سے قطع نظر چند سطروں کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنا، ان نتائج کو حتمی سچ جاننا اور فتاوی کی صورت لاگو کر دینا عام ہے۔ نادانستہ غلطی تو کہیں بھی ممکن ہے لیکن ان بیٹھکوں میں دانستہ دروغ گوئی اور بہتان تراشی باقاعدہ ہنر کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ پرانی مجلسوں میں لوک دانش، تاریخی حوالوں، برمحل ضرب الامثال اور لطیف مزاح برتنے والے محفل کی جان ہوتے تھے۔ آج محفل کی جان بننے یعنی وائرل ہونے کے لیے کچھ اور اسباب درکار ہیں۔

ان مشاہدات سے بہت سے نتائج نکالے جا سکتے ہیں۔ کوشش ہے کہ ان سب پر علیحدہ علیحدہ بات کی جائے۔ اس مضمون میں تاہم صرف یہ عرض کرنا مقصود تھا کہ زندگی نیا سکھانے پر تلی ہوئی ہے تو ہم بھی مزاحمت نہیں کریں گے۔ سیکھنے کا حوصلہ پیدا کریں گے۔ اس بیٹھک میں پرامن طور پر بیٹھنے اور اپنی بات کرنے کے لیے جو پہلی بات سیکھی وہ یہ کہ بامقصد گفتگو اور ”شور“ میں فرق کرنا سیکھا جائے۔ شور کو نظرانداز کرنا ضروری ہے۔ یہ وقت، توانائی اور توجہ تینوں کو بچانے کے لیے ضروری ہے۔ شور کی تعریف کسی اگلے مضمون میں۔ شور کرنے والوں کی تاہم ایک نشانی یہ ہے کہ پڑھنا ان کے لیے نزدیک عموماً ایک بے کار مشق ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).