نازلی کی انقلابی موبائل سم اور بابر کی جمہوری غیرت


\"waqarلوئر مڈل کلاس کے دو دلوں میں جانے کب سے محبت بُکل مارے بیٹھی تھی۔ پھر ایک رات محلے میں مہندی کی ایک تقریب میں نازلی سکھیوں کے ہمراہ انڈین گانے کی دھن پر ناچی تو بابر قدرے جھجکتے ہوئے سامنے آیا اور اس کے قدموں کی تال پر نظریں جمائے خود بھی تھرکنے لگا۔ نازلی کو لگا جیسے دلہن کے گھر کے درودیوار اس کی سنگت میں محو رقص ہوں۔ نظریں چار ہوئیں تو گردش دوراں تھم سی گئی۔ رقص کے دوران ہی نازلی نے خاموشی سے دل کے رومال پر اس کا نام کاڑھ لیا اور بابر نے بھی اپنی چاہت کا ہار نازلی کے گلے میں ڈال دیا۔

کھلی رنگت اور سرو قد نازلی نے بابر کی محبت کی خلعت فاخرہ پہنی تو جیسے جیون میں رنگ سے بھر گئے۔ زندگی نثرسے نظم مےں ڈھلی تواولین محبت کے پاگل پن کا جادو سر چڑھ کے بولا۔ وہ بابر کے ساتھ اس کی پرانی موٹر سائیکل پر اڑتی پھرتی۔ رازو نیاز کے لیے زمان پارک کا شمال مشرقی کو نہ ان کے لیے پرائم لوکیشن تھا، جہاں پہنچتے ہی درختوں کے پتے تالیاں بجا کر انہیں خوش آمدید کہتے اور سرخ گلاب کے پھول ہالا کر لیتے۔ وہ غٹر غٹر باتیں کرتی اورچپس یا برگر کھاتے اچانک دونوں پاﺅں اٹھا کر بینچ پر رکھ لیتی یا بابر کی کسی بات پر کھکھلا کر ہنستے ہوئے نیچے رکھ لیتی اور قہقہ لگاتے دہری ہو جاتی تو ان دلربا اداﺅں پر کلیاں چٹخنے لگتیں اور پھول جھوم کر واری واری جاتے۔ نازلی پر بابر کی محبت کا چھاچھوں مینہ برسا تو وہ نہال ہو گئی۔ پھر ایک دن زبان اور کان کے رشتے کو بدن کے رشتے میں بدلنے کے لیے بابر کی ماں اس کے گھر رشتہ لے کر آ گئی۔ نازلی کے ما ں باپ نے بخوشی ہاں کہہ دی اور دوسرے ہی دن منگنی کی سادہ سی تقریب میں دونوں نے ایک دوسرے کے نام کی انگوٹھیاں پہن لیں۔ دل اور بھی قریب آ گئے۔

پھر ملک میں عام انتخابات کا بگل بج گیا۔ رنگ برنگے بینروں ، جھنڈوں ،جلسوں اور ریلیوں کا موسم آ گیا۔ نازلی ایک نئی سیاسی جماعت” انقلابی پارٹی“ کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی ، جس کا چیئرمین ملک سے استحصالی نظام کے خاتمے کے لیے پر عزم تھا۔ وہ اس جماعت کے مقامی امیدوار ملک منور شرجیل کی محلے میں ہونے والی کارنر میٹنگ میں گئی تو اس کی آتش بجاں تقریر نے نازلی کے بغاوت شعار جذبات کو ایسی جلا بخشی کہ انقلابی پارٹی کے ساتھ اس کی جذباتی وابستگی ہوگئی۔ پارٹی کے منشور اور پروگرام میں اسے اپنی تمام محرومیوں کا مداوا نظر آتا تھا۔ وہ باقاعدہ جیسے ملک منور شرجیل کی فورس میں شامل ہو گئی اور سہیلیوں کے ہمراہ اس کے جلسوں اور کارنر میٹنگز میں عزم و ولولے سے شرکت کر کے ملک وقوم کے لیل ونہار بدلنے کے خواب دیکھنے لگی۔ ادھر بابر شروع ہی سے ”پاکستان سلامت پارٹی“ کا پر جوش کارکن اور اس کے یوتھ ونگ کا ممبر تھا۔ سلامت پارٹی نے اس حلقے سے خان خدا بخش کو ٹکٹ دیا تھا۔ خان نے پارٹی ورکروں کی میٹنگ بلائی ، جس میں بابر بھی شریک ہوا۔ الیکشن لڑنے کی حکمت عملی ترتیب دی گئی اور ورکروں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ خان خدا بخش کی جذباتی تقریر نے ورکروں میں نئی روح پھونک دی اوروہ جوش و خروش سے اسے کامیاب کرانے کے لیے جُت گئے۔

آج پہلی بار بابر اور نازلی میں اختلاف ہوا تھا۔ دونوں جذبات کے بگولوں پر سوار ایک دوسرے کو اپنے اپنے امیدوار کے حق میں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ چونکہ ٹھوس دلیل کسی کے پاس نہ تھی لہذا تلخ کلامی ہو گئی اور نازلی پہلی مرتبہ بابر سے لڑ بیٹھی۔ ملک میں ابھی جمہوری رویے اتنے پختہ نہ ہوئے تھے کہ دونوں اپنے اپنے سیاسی نظریات پر قائم رہتے ہوئے اکٹھے چل سکتے۔ فون اور ملاقاتوں میں بحث و مباحثہ جاری رہا، مگر دونوں اپنے اپنے نظریات پر استقامت اور ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ نازلی نے انا کے گنبد کو آسمان بنا لیا تو بابر نے غیرت کا مسئلہ۔ محبت میں دراڑیں آتی گئیں۔

دونوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے میں ملک منور اور خان خدا بخش کی شر انگیز تقریروں نے خوب چتاﺅنی دی، جو سیاسی اختلافات کونقطہ اشتعال تک لے گئے۔ دونوں لیڈر اپنی تقاریر میں مخالف امیدوار پر ایسی بے رحمی سے الزامات کی سنگ باری اور گالیوں کی بوچھاڑ کرتے کہ لگتا اگر سامنے آ جائیں تو ایک دوسرے پر فائر کر دیں۔ دونوں ایک دوسرے پر مالی بد عنوانیوں اور اشتہاریوں کو پناہ دینے کے سنگین الزامات عائد کرتے ، جو کسی حد تک درست بھی تھے۔ پھر ایک دن کارنر میٹنگ سے خطاب کے بعد خان خدا بخش پارٹی ورکروں سے مل رہا تھا۔ جب بابر نے اس سے ہاتھ ملایا تو خان نے کہا ”سناﺅ بھئی ! تمہاری مہم کیسی جا رہی ہے ؟ “ بابر سے پہلے ہی ایک اور ورکر چہک کر بولا” سر! اس کی منگیتر دشمنوں کے کیمپ کی پر جوش ورکر ہے ، یہ کیا خاک مہم چلائے گا؟ “ خان خدا بخش نے حیرت سے بابر کو دیکھا تو اس نے شرم سے سر جھکا لیا۔ بابرکا دل چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ اس نے فوراً ایک جذباتی فیصلہ کرلیا۔ اسے ملاقات کے لیے ایس ایم ایس کرنے کی زحمت بھی نہ کرنی پڑی تھی۔ نازلی کا پیغام پہلے ہی آ گیا۔ اسے بھی آج اپنی پارٹی میٹنگ میں ایسا ہی شرمناک طعنہ مل چکا تھا۔

غریبوں اور لوئر مڈل کلاسیوں کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ وہ خود کو دوسروں کے مفادات کا ایندھن بنا کر اپنی زندگیاں تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ آج پہلی دفعہ وہ زمان پارک کے شمال مشرقی کونے میں الگ الگ بینچوں پر بیٹھے تھے۔ درختوں کے پتوں اور گلابوں کو یہ بات اتنی بری لگی کہ انہوں نے آج تالیاں بجائیں ،نہ ہی جھومر ڈالا۔ تند خوئی اور تنک مزاجی اپنے عروج پر تھی۔ محبت کے آبگینے حصار سنگ کو توڑنے میں ناکام رہے۔ چاہت کی لے ٹوٹ گئی ، پیار کی تان بگڑ گئی۔ تلخ نوامذاکرات میں ناکامی کے بعد نازلی نے اپنا فیصلہ سنا دیا” میرا اور تمہارا سر ایک تکیے پر اکٹھے نہیں ہو سکتے ، کبھی نہیں“دونوں نے اپنے اپنے ہاتھوں کو انگوٹھیوں کے بار سے آزاد کیا اور انہیں ایک دوسرے کے حوالے کر کے مخالف سمتوں میں روانہ ہو گئے۔ تیز ہوا چلی ، پھولوں نے نوحہ گری کی اور پتوں نے ماتم داری۔ گھر آ کر نازلی اپنے کمرے میں گھس کر خوب روئی۔ جب دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو اس نے پوری قوت سے دل کا شٹر گرایا اور موبائل سم تبدیل کرلی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments