عمران خان اور ٹرمپ: مجھے بھی کچھ کہنا ہے


وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے بارے میں اتنا کچھ لکھا، کہا اور سنا جا چکا ہے ہے اب میرے لکھنے کی کوئی وجہ یا گنجائش نہیں رہ جاتی۔ لیکن پھر بھی میں لکھ رہی ہوں۔ کیوں؟ اس لئے کہ میرا بھی دل چاہ رہا ہے کہ لکھوں۔

میں نہ تو تجزیہ نگار ہوں نہ سینیئر صحافی۔ نہ ہی کسی تھینک ٹینک کی رکن اور نہ ہی ماہر معاشیات کہ آپ کو کرنٹ ڈیفیسٹ اکاونٹ، گردشی اور غیر گردشی قرضوں کی غلام گردشوں میں گھماؤں۔ میں ایک عام شہری ہوں۔

جیسے ہر ٹاک شو سے پہلے ڈیسکلیمر چلایا جاتا ہے ویسے ہی میں بھی کہہ دوں کہ میرا کسی بھی سیاسی، مذہبی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی میری ہمدردیاں کسی کے ساتھ ہیں۔ میں خود اپنی ہمدرد ہوں۔ ایک وقت تھا کہ پی پی پی کے ساتھ محبت ہوئی لیکن یہ محبت انکنڈیشنل نہیں تھی۔ امیدیں تھیں، توقعات تھیں، حق تھا۔ بی بی کے میاں نے بی بی کو نئے راستے پر ڈال دیا۔ ہیروں کے ہار، سرے محل، گھوڑوں کی تجارت اور مسٹر ٹین پرسنٹ جیسے الفاظ سن سن کر دل بھی بدل گیا۔ پھر بھی بی بی کو بچوں کا ہاتھ تھامے جیل میں میاں سے ملنے جانے کے مناظر اور شریف فیمیلی کے ان کے کردار پر رکیک حملے اور گندی زبان سن کر بی بی سے ہمدردی ضرور رہی۔ لیکن زرداری کے کارنامے اس ہمدردی پر غالب آ رہے۔

شریفوں سے کبھی بھی کوئی امید نہیں رکھی۔ ضیا کی گود میں کھیلنے والے یہ لوگ جونکوں کی طرح ملک کی رگوں سے چمٹ گئے اور خون چوس چوس کر ملک کو معاشی طور پر انیمیک کر گئے۔

عمران خان کرکٹر تھے تو بہت اچھے لگتے تھے۔ سیاستدان بنے تو شک ہی رہا کہ یہ آخر چاہتے کیا ہیں؟ ایک کرکٹر پر تو تھوڑا سا غرور اور خود پسندی جچ جاتی ہے لیکن ایک سیاستدان کو انکساری اپنا لینی چاہیے۔ پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وہ سچ مچ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ آج کا موضوع ان کا امریکی دورہ ہے۔

پاکستانی میڈیا تیار بیٹھا تھا۔ وزیراعظم انڈر مایئکروسکوپ تھے کہ کہاں کوئی غلطی ہو یا ان کی کوئی بے عزتی ہو اور میڈیا کے پاس مواد آجائے اور وہ اس دورے کی تمام منفی باتوں کو ہائی لائٹ کریں۔

میں اس دورے کو ایک عام شہری کی حثیت سے دیکھ رہی ہوں۔ اور مجھے یہ دورہ بہت کامیاب دکھائی دیا۔ ان کے جانے سے پہلے دورے کی کامیابی کی امیدیں کچھ زیادہ نہیں تھیں۔ دو خود پسند ملنے جا رہے تھے۔ دونوں بات کرنے سے پہلے سوچتے نہیں۔ دونوں ہی اپنے اپنے ملک کی تقتدیریں بدلنے اور نیاپن لانے کی باتیں کرتے ہیں۔ ٹیوٹر پر بھی نوک جھونک ہوتی رہی ہے۔ کہیں ٹکراؤ نہ ہو جائے۔

چند ماہ پیشتر اس قسم کے دورے کے امکانات صفر نظر آتے تھے۔ اب نا صرف یہ دورہ ہوا بلکہ کامیاب بھی رہا۔

پہلے دن عمران خان نے پاکستانی امریکیوں سے خطاب کیا۔ ناقدوں نے اعتراض اٹھایا کہ یہ خطاب کسی الیکشن کمپین میں کی جانے والی تقریر لگتی تھی۔ مان لیا۔ لیکن جب اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا اور یہ سارے پاکستانی عمران کو سننے آئے تھے۔ دور نزدیک کے شہروں سے جوق درجوق۔ مرد خواتین اور بچے بھی۔ یہ عمران کے سپورٹر تھے۔ تقریر موقعہ کی مناسبت سے تھی۔

اگلے دن اوول آفس میں ٹرمپ اور خان کے بیچ کیا باتیں ہویں یہ پورا علم تو نہیں لیکن دونوں کی پریس کانفرنس بتا رہی تھی کہ معاملات کافی حد تک طے ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی اور افغانستان دونوں ملکوں کا اہم مسئلہ رہا ہے اور دونوں سربراہ ایک جیسی سوچ رکھتے نظر آئے۔ امریکہ نے پہلی بار پاکستان کے دہشت گردی کی روک کے لئے اٹھائے اقدام سے مطمیئن دکھائی دیا۔ کچھ ڈالروں کی جھلکی بھی دکھائی تجارت کی بات کی بھی کی۔ پاکستنیوں کی دل کھول کر تعریفیں بھی کیں کی وہ بہت ذہین لوگ ہیں اور اچھی چیزیں بناتے ہیں۔ امید بندھی کہ ”اور کھل جائیں گے دوچار ملاقاتوں میں۔ “

افغانستان میں پائدار امن دونوں ملکوں کی خواہش بھی ہے اور ضرورت بھی۔ امریکہ جلد از جلد وہاں سے نکلنا چاہتا ہے اور پاکستان بھی اب افغان الزام تراشیوں سے تنگ آ گیا ہے اور دامن بچا کر گزرنا چاہتا ہے۔ اپنا اپنا ملک اپنے اپنے مسائل اور اپنی اپنی حکومتیں۔ افغانستان کو بھی اب اپنے پیروں پر کھڑا ہوجانا چاہیے۔

پریس کانفرنس میں زیادہ تر ٹرمپ صاحب بولتے رہے۔ انہیں اپنی ہی آواز سننا پسند ہے۔ عمران خان پر کچھ آوکوارڈ لمحے آئے کیونکہ وہ بھی مرکز نگاہ بنے رہنے کے شوقین ہیں۔ کہیں کہیں وہ پہلو بدل کر رہ گئے۔ ٹرمپ اپنی بڑائی میں بولتے ہی چلے گئے کہ کیسے وہ چاہیں تو افغانستان کی جنگ ایک ہفتہ میں تمام کر سکتے ہیں اور افغانستان دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا۔ لیکن وہ لاکھوں لوگوں کو ہلاک نہیں کرنا چاہتے۔ عمران خان مسکرا دیے۔ یہ دیکھ کر بھی اچھا لگا کہ ہمارے وزیراعظم پرچی جیب سے نکال کر اٹک اتک کر بات نہیں کر رہے۔

اس دورہ سے دونوں کی کیمسٹری ملتی دکھائی دیتی ہے۔ جو سب سے بڑی کامیابی اس دورے کی ہوئی وہ ٹرمپ کا ثالثی کردار ادا کرنے کی بات تھی۔ حوالہ بھی دیا مودی کا کہ یہ خواہش خود مودی کی طرف سے آئی ہے۔ یہ ایک ایسا ٹرمپ کارڈ تھا جس نے مودی سرکار کو مشکل میں ڈال دیا۔ ان وہ انکار کریں تو مشکل انکار کریں تو مشکل۔ لیکن پاکستان کے لئے یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ امید کے مطابق انڈیا نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا لیکن پھر بھی انڈیا کی کچھ کچی ضرور ہوئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ صاحب اپنی باتوں پر کس حد تک قائم رہتے ہیں۔ انہیں بھی یو ٹرن لینے میں مہارت حاصل ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی دہشت گردی کی واردات ہو جائے اور ٹرمپ کو مکرنے کا موقعہ مل جائے۔

عمران خان کا فاکس ٹی وی چینل کو انٹرویو دینا بھی ایک دلیرانہ قدم تھا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ چینل ٹرمپ کا پر زور حامی ہے۔

مجھے ذاتی طور پر عمران خان کی ڈریسنگ پسند نہیں آئی۔ ایک ہی رنگ کی شلوار قمیض اور واسکٹ؟ سخت آوٹ ڈیٹیڈ۔ پشاوری چپل جرابوں کے ساتھ؟ نو نو۔ کچھ کچھ حامد کارزئی ٹائپ لگے۔ خیر یہ باتیں نان ایشو ہیں بس یونہی کہہ دیا۔

دورے کی کامیابی سے غرور میں ہلکا سا سرور بھی شامل ہو گیا۔ اور واپس آتے ہی انہوں نے نواز شریف کا اے سی اور ٹی وی بند کرنے کی بات کرڈالی۔ ایسا مت کریں وزیراعظم صاحب۔ عدالت اور جیل سسٹم کو اپنا کام کرنے دیں۔ آپ کاموں پر توجہ دیں۔ اسکول بنایں، ڈسپنسریاں کھولیں، صاف پانی فرہم کریں، سڑکیں ٹھیک کریں، پلاسٹک بین کریں۔ کرنے کو بہت کچھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).