مصطفی بھائی کے ابا اور 25 جولائی کا دن


مسلم لیگ ن کا احیاء اس وقت کیا گیا جب پاکستان پیپلزپارٹی سمیت دیگر وژن رکھنے والی جماعتیں تھیں اور نظریاتی سیاست کا رواج اپنے عروج پر تھا۔ نظریات کا رومانس ختم کرنا اس وقت کی ریاستی حکمت عملی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جو تھوڑی بہت سیاست کی اخلاقی اقدار جوباقی تھیں آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی قیادت میں ان کا جنازہ نکل گیا اور مک مکا کی سیاست تیزی سے ترقی ہوئی اس نہج پر پہنچ گئی کہ سیاسی جماعتوں کے منشور، نعرے، وعدے اور حکمت عملیوں میں کلی یکسانیت پیدا ہوگئی۔

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں جو واضح فرق تھا۔ آصف زرداری کی رائے ونڈ یاترہ سے مکمل طور پر ختم ہوگیا۔ دونوں بڑی جماعتوں کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے کچھ آصف زرداری کمیپ اور کچھ نے نواز شریف کی چھتری تلے جگہ بنالی۔ یوں ملک پاکستان کی مجموعی سیاست کا ایکا ہوگیا۔ سیاسی جماعتیں نئی لیڈرشپ کی نرسریوں کی بجائے ملٹی نیشنل اور پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کی شکل اختیار کرتی گئیں۔

پارٹی یونٹس کی بجائے پارٹی فرنچائز فروخت ہونے لگیں۔ ایم پی اے، ایم این اے اور سینیٹرکے لئے پارٹی ٹکٹ کی منڈی سجائی جاتی پارٹی کا ممبر ہونا اور سیاسی وابستگی کی شراءظ سے بلاتر ہوکر صرف اور صرف بولی میں لگائی جانے والی رقم واحد میرٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ چور، جعلی دوائیں بنانے والے۔ شراب اور منشیات کے کاروباری، رسہ گیر، بدمعاشوں اور ڈاکووں نے سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ خریدے اور اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے۔

جنہوں نے وزیر اور مشیر بن کر اپنی بدمستیوں کے وہ مظاہرے کیے کہ انسانیت شر ما شرما کر رہ گئی۔ اگر کسی درباری کوشک ہے تو وہ پچھلی تاریخوں کے اخبارات نکال کر سہ سرخیاں پڑھ کر اپنی تسلی کر سکتا ہے۔ اقتدار کے ایوان ماسی ویہڑہ سمجھ کر پاکستان کے وسائل سمیت قومی خزانہ مال غنیمت کی طرح لوٹا گیا۔ الگ الگ بادشاہتیں قائم کرکے ملک کے اباجی بن بیٹھے کہ جو وہ چاہیں گے وہی ہوگا۔ تکبر اور رعونت کا یہ عالم تھا کہ آئین، قانون اور ریاستی اداروں کو بھی باندی بنانے پر اتر آئے۔

مبادا کہ عوامی غم وغصہ پروان چڑھتا اور کوئی نئی روایت جنم لیتی بڑے ابا نے متبادل کی تخلیق کی راہ اپنائی اور مسلسل محنت سے کچھ کھٹا کچھ میٹھاملا کر ملک وقوم کے لئے نیا معجون بنا لیا۔ جس سے ملک وقوم کو کچھ افاقہ تو ضرور ہوا ہے بے شک کچھ مضراثرات بھی پڑے ہیں۔ مگر سابقین کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں ہے جو ابھی تک اس امر پر یقین کرنے پر تیار نہیں ہیں کہ ابا جی کی بادشاہت تمام ہو چکی ہے۔ طرفہ تماشا کہ دس سالہ کھڑپنچی کا حساب بھی مانگا جارہا ہے اوربادشاہتوں کے دونوں اباجی کوٹھریوں میں بند ہیں جنہیں کبھی یہ گھمنڈ تھا کہ اب وہ آئین و قانون سے ماورا ہیں۔

25 جولائی کویوم سیاہ منانے والوں کے کالے کرتوتوں کی سیاہ کاریاں ابھی دھلی نہیں ہیں کہ عوام ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ عوام نے اجتماعی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمرانوں کے یوم تشکر کو بھی پذیرائی نہیں دی ہے کہ حکومتی سال مکمل ہونے پر عوام کو ریلیف نہیں ملا بلکہ الٹا مہنگائی کا عذاب نازل ہوا ہے۔ تحریک صوبہ پوٹھوہار کے چیئرمین راجہ اعجاز عمران خان کے ناقد ہیں۔ دورہ امریکہ کی کامیابی کے ڈھول بجانے پر ردعمل میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں ہر پاکستانی حکمران کا دورہ امریکہ کامیاب ہی رہا ہے۔عمران خان کون سا انوکھا کام کر آئے ہیں۔

اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کو شرمناک قرار دیتے ہوئے راجہ اعجازکا کہنا تھا کہ اپوزیشن صرف اقتدار چھن جانے اور احتساب کے خوف میں بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ عمران خان حکومت نے نواز شریف اور پیپلزپارٹی کی دی گئی کون سی سہولت عوام سے واپس لی ہے۔ جس پر تحریک چلا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز صرف ابابچاؤ مہم چلارہے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ مصطفی بھائی کا ابا ہو چاہے مریم اور بلاول کا ابا ہو عروج کے بعد لازوال تو آتا ہی ہے۔ اب ابا گرفت میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).