سندھ میں مسائل اور ابھرتی ہوئی نوجوان قیادت


صوبہ سندھ ملکی کی سیاسی تاریخ میں اہم کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے ون یونٹ کا کا زمانہ ہو، ضیائی مارشل لا ہو یا پھر ایم آر ڈی کی جدوجہد ہو ہمیشہ یہاں سے نوجوان چہرے قیادت کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔

سندھ میں نوجوان قیادت اپنے سیاسی شعور، سائنسی سوچ و فکر اور جدید تقاضوں کے مطابق منطم طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اکیسویں صدی میں سیاست، سماجیات اور جدوجہد کے اصولوں میں وقتی تقاضاؤں کے مطابق واضح فرق آیا ہے، اب جدوجہد کے اصولوں میں بھی جدت آ چکی ہے اور نوجوان نسل اس سے بھر پور آشنا ہے جس میں سوسل میڈیا کے ٹولز، آن لائن مہم اور ڈیجیٹل طریقہ کار ایجاد ہو چکے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں 2007 سے لے کر آج تک پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے، یہاں پہ دو فکر کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک پیپلز پارٹی کے حامی اور دوسرے پ پ پ مخالفین  جن کی آپس میں نہ ختم ہونے والی رسہ کشی جاری ہے۔

بیچ میں ہے سندھ کا پڑھا لکھا اور اہل شعور نوجوان طبقہ جو سسٹم میں تبدیلی چاہتا ہے اس گھسے پٹے نظام، پرانے نعروں، جاگیردارانہ نظام اور ان کے بوٹ پالیشیوں سے آزادی چاہتا ہے، بڑی سحر انگیز اور خوبصورت بات یہ کے ان نوجوانوں میں اکثریت ہماری خواتین کی ہے جو بے خوف ہیں، جو گھبراتی نہیں ہیں، جو ڈٹ جاتیں ہیں۔ چاہے مسئلہ انسانی حقوق کا ہو، عورت کے ساتھ ظلم و جبر ہو، کسی بچے کے ساتھ زیادتی ہو، غیرت کے نام پہ قتل ہو یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ انتطامی بدمعاشی ہو، ایڈز کی وبا کے خلاف مہم ہو، بدین میں پانی کا مسئلہ ہو یا پھر تھر میں قحط سالی ہو وہ بے خوف ہو کر نکل پڑتے ہیں۔ ان کا کوئی سیاسی پلیٹ فارم تو نہیں ہے لیکن کچھ فورمز ضرور ہیں جو سیاسی اور سماجی مسائل پہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سندھ میں سیاستدان ہوں، ادیب و دانشور ہوں یا پھر سماجی کارکن ہوں کیے دہائیوں سے اک ہٹی قائم کیے ہوئے ہیں، نوجوانوں کو اسپیس دینے لے لئے تیار نہیں مثال کے طور پہ کوئی عورت حقوق کے نام سے دکان چلا رہا ہے تو کوئی سماجی برائیوں کے خاتمے کی دکان چلا رہا ہے تو کوئی ادب کے نام پہ! اب صحافی حضرات بھی اس لسٹ میں شامل ہو چکے ہیں۔

لیکن سندھ کی یہ بے خوف نوجوان قیادت جس نے کچھ ہی عرصے میں عملی جدوجہد سے سندھ کے لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنایا ہے۔ جس کی مثال ام رباب ہے جو اپنے باپ، دادا، اور چچا کہ قتل کے خلاف سراپا احتجاج ہے جس کی جدوجہد نے جاگیردارانہ سماج اور اس کے حواریوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ دوسری طرف مزاحمت کے رہنماء مسرور شاھ، مھران میمن اور ان کے ساتھی ہیں جو نوجوانوں کی شعوری آبیاری کے ساتھ ساتھ عملی جدوجہد میں بھی نمایاں ہیں۔ اور کراچی میں نوجوان سید خلیل شاہ اور ان کے ساتھی عوامی راج تحریک کے پلیٹ فارم سے مصروف عمل ہیں۔

ان کے ساتھ سندھو نواز گھانگھرو جو NCA لاہور سے فارغ التحصیل ہیں، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں اور خصوصا طلبہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پہ اک طاقتور آواز بن چکے ہیں اور یوتھ ایکشن کمیٹی کی چیئرپرسن کے طور پہ عملی میدان میں ہیں۔ عورت حقوق کی پاسداری کے لئے صنم چانڈیو نے عورت تحفط موومنٹ کی بنیاد ڈال رکھی ہے جو عورتوں کے حقوق کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طلبہ یونین کی بحالی کے لئے سندھ یونیورسٹی کے نوجوان فراز چولیانی آل اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے طلبہ حقوق اور شاگرد یونین کے بحالی کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماروی اعوان وومین پروٹیکشن سیل (WPC) سندھ کی ریپریزنٹیٹو کے طور پہ اپنے فرائض انجام دے کر ہراسمینٹ اور خواتین کے دوسرے مسائل کے حل کہ لئے کوشاں ہیں۔ اور بھی بہت سارے نوجوان اپنی تحریروں اور اور سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے سماج کی بہتری کے لئے اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

مجموعی طور پہ یہ سندھ کا نوجوان اور روشن خیال چہرہ سامنے آیا ہے جس نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنی سنجیدہ اور عملی جدوجہد سے بہت سارے سیاسی اور سماجی ایشوز پہ کامیابیاں حاصل کی ہیں، اور مثبت طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں سماجی مسائل کے خاتمے سے ہی سماج میں امن قائم ہوگا اور نوجوانوں کو سیاست میں بھی اپنا حصہ ڈالنے کا موقع ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).