ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
بہت شور مچا ہوا ہے کہ ہماری معیشت تنزلی کا شکار ہے۔ برباد ہوجائیں گے، دیوالیہ نکل جائے گا۔ ڈالر مہنگا ہوگیا، سونا نایاب یوگیا۔ بازار سنسان، کاروبار میں مندی کا رجحان۔ افراط زر کی شرح بلند ہوگئی۔ یقینا معاملات ایسے ہی ہیں۔ یہ سب ایکا ایکی نہی ہوا۔ دہائیاں لگی ہیں اس سب میں۔ ایسا کیوں ہوا؟ کون اس سب کا ذمہ دار ہے؟ کوئی ایک سیاسی جماعت؟ نہی۔ کوئی ایک ادارہ؟ نہی۔ کوئی ملک؟ نہی۔ یہود و ہنود کی سازش؟ نہی۔ یہ سب نہی تو کون آخر کون ہے جو اس مملکت خداداد کے پیچھے پڑا ہے کہ چین سکون جیسے اس کے حصے میں ہی نہی آیا۔
اپنی ناکامیوں کے پیچھے دوسروں کی سازشین ڈھونڈنے کی بجائے کیا کبھی ہم نے اپنا محاسبہ کیا کہ ہمارا کردار کیسا رہا۔ ہم اپنے آپ کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں۔ کیا اتنا کافی ہے کہ ہم ایک مسلمان کے گھر پیدا ہوئے تو مسلمان ٹھہرے۔ اسلام کیا ہے کبھی اس پر توجہ دی۔ لمبے کرتے، اونچے شملے اسلام ہیں کیا۔ داڑھیوں کو عطر وخجاب سے سنوار لینا ہی اسلام ہے کیا۔ بہن بیٹیوں کو تعلیم سے محروم کرکے کسی نکمے، آوارہ بد چلن کے ساتھ اپنی مرضی سے بیاہ دینا ہی اسلام ہے کیا۔
اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے بیویوں پر تشدد کرلینا اسلام ہے کیا؟ کیا ناپ تول میں کمی ہنارا محبوب مشغلہ نہی ہے۔ ملاوٹ شدہ اشیاء سے لوگوں میں بیماریاں بانٹ کر حج عمروں پر چلے جانا اسلام ہے کیا؟ جھوٹ، ناجائز زمینوں پر قبضے، منشیات کا دھندا، ذخیرہ اندوزی، بیٹیوں کے حق غصب کرنا، کیسے کیسے جرائم ہیں جن کو ہم اپنی نماز روزوں کے پیچھے چھپا کے نہی رکھتے۔
ہاں یہ سب اور اس سے بڑھ کر اور بہت کچھ ہم کرتے ہیں۔
نصف ایمان ”صفائی“ سے تو ہمارا ویسے ہی لینا دینا کچھ نہی۔ ”ایک میرے صفائی کرنے سے کون سا معاشرہ صاف ستھرا ہوجائے گا“ ہماری اجتماعی سوچ ہے۔ تعمیر پر منقسم قوم کی سوچ تخریب پر ایک ہے۔ یہ محض سوچ ہی نہی ہے بلکہ اس پر من و عن عمل بھی کیا جاتا ہے۔ ٹریفک قوانین کی پامالی ہو یا بجلی گیس کی چوری، تفخر و دلیری کی علامات ہیں۔ کوئی پشیمانی ہے نا ندامت کہ اپنی بد اعمالیوں سے ہم اس ملک کو کس نہج پر لے آئے ہیں۔
بس ایک ہی غم ہے جو ہمیں کھائے جاتا ہے کہ کہیں وقت کا ڈنڈا ہم پر نا چل جائے۔ کہیں ایسا حاکم ہم پر مسلط نہ ہوجائے جو ہم سے اس بات کا تقاضا کرے کہ قانون پر عمل کرو۔ ہمارے ذخیروں میں محفوظ گندم دال چینی پر کوئی ہاتھ نہ ڈال دے۔ ہمارے کاروبار رجسٹرڈ کرکے ناجائز منافع خوری و ٹیکس چوری پہ قدغن نہ لگ جائے۔ طاقتور بدمعاشیہ کو یہی فکر ستائے جاتی ہے کہ جنرل سیلز ٹیکس جو محکوم و مظلوم عوام کی جیبوں سے نکلتا ہے کی جگہ انکم ٹیکس نا لے لے جو زیادہ آمدنی پر ادا کیا جاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے ہڑتالیں ہیں آہ و فغاں ہے۔ مہنگائی کا راپ ہے۔ معیشت کی تباہی کے نوحے ہیں۔ یہ سب تو پہلے سے ہیں صاحب، کچھ نیا ہے تو بتاؤ۔
اگر یہی رونا پیٹنا تب کیا ہوتا جب جی ایس ٹی میں یکمشت دس فیصد اضافہ کردیا گیا تھا تو مانتے کہ تاجر ہمارے ہمدرد ہیں۔ تب تو ڈاکہ عوام کی جیب پر پڑا تھا۔ آپ کے نفع کو فرق نہی پڑتا تھا، سو سب اچھا کا منتر پڑھا جارہا تھا۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا کہ ناجائز منافع خوری کیوں ہے۔ ہر دکاندار کا اپنا ریٹ تھا۔ اب جب ایف بی آر سے رجسٹریشن کا کہا جا رہا ہے تو موت سامنے آکھڑی ہوئی کہ ناجائز منافع خوری تو گئی سو گئی، آمدن پر بھی ٹیکس دینا پڑے گا۔
اب روتے ہیں کہ ہم تو عوام کے غم میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں تو صاحب اتنی سی التجا ہے کہ عوام کے دکھ درد کا اتنا خیال ہے تو انہیں خالص اشیاء بیچو۔ زمین سے نکلنے والا پانی تک تو آپ لوگ آلودہ کرکے پچاس روپے لیٹر تک فروخت کرتے ہیں۔ یہ تو عام مارکیٹ کی بات ہے۔ ذار کسی اچھے ریستوران میں جاکر دیکھیں تو یہی ڈیڑھ لیٹر پانی کی بوتل 110 روپے کی ملتی ہے۔ بل پر جب سولہ فیصدٹیکس لگاتے ہیں تو یہ قیمت 130 تک پہنچ جاتی ہے۔
بتائیں اب جو تاجر دودھ سے مہنگا زمین سے نکلنے والا پانی فروخت کرتے ہوں ان کی کال پر ہڑتال کریں تو کیا سوچ کے کریں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے خربوزوں کی رکھوالی پہ گیدڑ بیٹھے ہوں۔ ایسا ہو بھی کیوں نا کہ جب حکمران پاناموں، اقاموں اور بے ناموں کے دلدادہ ہوں تو تاجر و آجر ان کا عکس ہوتے ہیں۔ ہر ایک نے اپنی اپنی بساط و اہلیت کے مطابق نقب لگایا ہے۔
ایسی ہی کسی صورتحال کے لیے شوق بہرائچی نے کہا ہے
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
- کیا پھٹی جینز ہی روشن خیال ہے - 13/09/2021
- سیکیولرازم یا اسلام : مکالمے پر تبصرہ - 28/12/2019
- گلشن زہرا کے پھولوں کو سلام - 08/09/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).