وقت کا ادراک زندگی کو قدرے آسان بنا دیتا ہے


گذشتہ تحریر، ”لمحہ موجود میں جینا سیکھئے“ کی اشاعت کے بعد ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کی حوصلہ افزائی اور سوا لات کے بعد دوبارہ اس موضوع پر لکھ رہی ہوں۔ یہ موضوع وسعت کا حامل یے، جس کی تشریح کے لئے زیادہ وقت اور موضوعاتی تسلسل درکار یے۔

وقت ماضی، حال اور مستقبل میں بٹا ہوا ہے۔ وقت کا یہ تکون انسانی زندگی کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچے فقط حال میں مگن رہتے ہیں۔ لہٰذا بچے بہت خوش رہتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں ماضی اور مستقبل کا خاکہ نہیں ہوتا جب کہ نوجوان مستقبل میں رہتے ہیں۔ معمر افراد ماضی میں پناہ لے کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ زندگی کے یہ تین مختلف رخ، ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔

آئنسٹائن نے وقت کو واہمہ قرار دیا، جس کی کوئی حقیقت نہیں یے۔ وقت شعوری ادراک ہے، جس کے بغیر ہم وقت کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ مثال نیند میں ہم وقت سے غافل ہوجاتے ہیں۔ نیند کا یہ سفر آٹھ سے نو گھنٹے کا ہو یا اس دورانئے سے کم ہو، آنکھ کھلنے کے بعد لمحے بھر کا محسوس ہوتا یے۔ کیونکہ نیند میں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح پاگل انسان کو وقت کا ادراک نہیں ہوتا۔ تنتی سرشتے کی بیماریوں جیسے کہ ڈمینشیا، الزائمر وغیرہ میں وقت کی اہمیت و نوعیت بدل جاتی یے۔

اور مریض کا تحت الشعور متحرک ہو جاتا یے۔ وہ ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزرنے لگتا یے۔ ان مریضوں کا حال سے رابطہ فعال نہیں رہتا جتنا کہ ماضی سے ان کا تعلق جڑ جاتا ہے۔ خودفراموشی کے اس حالت میں ایک مریضہ کو بار بار وہ واقعہ دہراتے دیکھا جب ان کے گھر ڈاکو گھس آئے اور مزاحمت کے دوران ان کی دیورانی کو گولی لگی تھی۔ وہ چلا کر کہتیں، ”دروازے بند رکھو ڈاکو اندر آجائیں گے اور محمودہ (دیورانی) کو گولی ماردیں گے“۔

موت سے پہلے، کسی بھی عام بیماری کے دوران یا بیمار ہوئے بغیر بھی پری ڈیتھ سنڈروم کی کیفیت سے گزرتے، اکثر مریض ماضی کا زیادہ تذکرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ میری دوست کی والدہ کو جن کی عمر اسی سال تھی، پری ڈیتھ سنڈروم کے دوران ڈاکٹرز نے انہیں ڈمینشیا کی تشخیص کرتے یوئے دوائیں دینا شروع کیں حالانکہ انہیں ڈمینشیا نہیں بلکہ عمر کے اعتبار سے نروس ویک نیس تھی۔ ان کی حالت مزید بگڑ گئی۔ انہیں ماضی کی ہر بات یاد تھی۔

بچوں کو پہچانتی تھیں۔ کبھی دوائیں انہیں خودفراموشی کی کیفیت سے ہمکنار کر دیتیں۔ میں نے دوست سے کہا انہیں ڈاکٹرز سے دور رکھو۔ کیونکہ اب جتنی بھی عمر باقی ہے انہیں سکون سے رہنے دو۔ قصہ مختصر کہ تین مھینے بعد دوست کی والدہ چل بسیں۔ میں اکثر یہ بات سوچتی ہوں کہ زندگی میں سکون نہیں ہوتا اور لوگ چین سے مرنے بھی نہیں دیتے!

انسان ماضی کو نہیں بھولتا۔ بچپن و ناخوشگوار واقعات خاموشی سے اس کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔

زیادہ تر ہم ماضی یا مستقبل میں بھٹک رہے ہوتے ہیں اور حال غیر موجود ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا مزاج ماضی میں رہنے والوں جیسا ہے، نفرت، کدورت، عدم برداشت، خود رحمی، احساس کمتری، ندامت، پشیمانی اور احساس جرم ماضی میں زیادہ رہنے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ماضی میں رہنے والے لوگ، انسانی خامیوں، غلطیوں اور رویوں کو مستقل ذہن میں تازہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو برائی یا خامی کو زیادہ اچھالتا ہے۔ کوئی بھی غلط واقعہ ایک طویل عرصے تک لوگوں کی باتوں میں تازہ رہتا ہے، اس منفی واقعے کو اس قدر دہرایا جاتا ہے کہ وہ برا واقعہ ذہنوں پر نقش ہو جاتا ہے اور یہ غلط سوچ پروان چڑھتے ہوئے کسی دوسرے حادثے میں ڈھل جاتی ہے، ہم منفی رویوں کو ہفتوں یاد رکھتے ہیں جب کہ مثبت رویے اور خوشگوار واقعات کو ذہن میں کم جگہ دیتے ہیں۔ لہٰذا مزاج کے خلاف باتوں کی حقیقت پسندانہ انداز سے سامنا نہ کرنے کی وجہ سے معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں۔

کوئی برا واقعہ یا مزاج کے خلاف بات کو ذہن میں بار بار دہرانے سے ہر بار وہ تکلیف تازہ ہو جاتی ہے، یہ خود اذیتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ انسان اذیت پسند ہے، چاہے وہ اپنی ذات کو تکلیف دے یا دوسروں کے لیے ناقابل برداشت بن جائے۔ یہ ذہنی اذیت پسندی ہے، جس سے تلخ اور بد صورت رویے دوسرے لوگوں کو تنگ کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ دوسروں کو اچھا احساس نہیں دے سکتے۔ روزمرہ زندگی میں ہم اپنی منفی سوچ دوسروں پر انڈیل کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اپنے دکھ، محرومیاں، مسائل اور تضادات مستقل ایک دوسرے کو سنا رہے ہوتے ہیں۔

جن کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے ایک لحاظ سے ذاتی تکلیف ان لوگوں تک منتقل کر دی جاتی ہے جن کا براہ راست ان حالات سے واسطہ نہیں ہوتا۔ زیادہ تر سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹی جاتی ہے، ہمارا پورا معاشرہ ان رویوں کا شکار ہے، اگر انسان سمجھ دار ہے تواسے خود یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ کوئی منفی بات کیوں سنے اور مدمقابل جو خود کو مظلوم ثابت کرنے کی بھرپورکوشش کر رہا ہے وہ اس کی ذاتی کمی یا احساس محرومی کا سبب ہے، شکایتی رویوں کی نفسیات کا تعلق خود رحمی یا احساس کمتری سے ہوتا ہے اور کبھی احساس برتری بھی ناخوش رویوں کو ظاہر کرتی ہے۔

یہ وقت کا تخریبی استعمال ہے کہ مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے، منفی سوچ کو بار بار دہرا کر اسے مزید پختہ کیا جاتا ہے۔ یہ وقت جو ہم دوسروں کو برا ثابت کرنے میں گزارتے ہیں، وہ ہم اپنی زندگی کو بہتر بنانے میں کیوں نہ صرف کریں۔ ایسے منفی رویوں کی پختگی سے معاشرے اخلاقی طور پر پسماندگی کا شکارہوجاتے ہیں۔ ماضی سے حد درجہ وابستگی، واہموں، قیاس آرائیوں اورمغالطے کو جنم دیتی ہے۔ جہاں تک حال کا سوال ہے تو وہ ماضی کے دہرانے سے بدحال رہتا ہے۔ حال سمجھ اور سوجھ بوجھ سے خالی ہے تو مسائل کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔

صوفی یا درویش وقت کے مختلف ڈائمینشنز میں رہتے ہیں۔ صوفی کا مشاہدہ فطرت اور حال کے لمحوں سے کشید کیا ہوا ہے۔ وہ وقت کا دوست ہے اور ہر لمحے کا ادراک رکھتا یے۔ وقت کے مختلف پل مختلف انوکھے انکشاف رکھتے ہیں۔ صبح، دوپہر، شام اور رات کے زمینی و کائناتی حقائق، کیمیائی ردعمل کے مختلف اثرات ہیں، جنہیں صوفی جانتا یے۔ جو انسانی ذہن و جسم پر مرتب ہوتے ہیں۔ جبکہ درویش، جلالی کیفیات میں زماں و مکاں کی سوچ سے ماورا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی باطن کی نظر متحرک اور وہ خودفراموشی کے عالم میں ہوتا ہے۔ کیونکہ جذب، بیخودی، کیف و مستی وقت سے ماورا ہیں۔

وقت کی آگہی اور سمجھ عقلی رویہ ہے، حال، مشاہدات و تجربات کی طاقت سے بھرپور ہوتا ہے، اگر ذہن میں یکسوئی نہیں اور خیال منتشر ہے (اگر ہم لاشعور میں گم ہیں اورماضی کو سوچ رہے ہیں ) تو حال کے لمحے بے اثر ہو جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہم نے وہ انتہائی اہم لمحہ کھو دیا۔ جدید علوم لمحہ موجود کی افادیت کو بیان کرتے ہیں۔ ان لمحوں میں دماغی طور پرحاضر ہونا اورخود کو پرسکون رکھنا ہی وقت کو ذہن کے تابع کر دیتا ہے۔

منتشرذہن کبھی وقت پر حکمرانی نہیں کر سکتا۔ وقت کے ساتھ چلنا اور اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کی صلاحیت، لمحہ موجود میں جینے کا ہنر کہلاتے ہیں۔ ماضی اورمستقبل میں کھوئے لوگ، حال کا یہ بیش قیمت سرمایہ کھو دیتے ہیں۔ دماغی طور پر غیرحاضری دوستی و رشتوں کو متنفر کر دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں ذہنی وروحانی مستعدی حاصل کرنے کے لیے ادارے کھل گئے ہیں۔ میڈیٹیشن (مراقبہ) ، یوگا اور ریکی وغیرہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔

یہ علوم فرد کو ذات کے تضاد سے نجات دلاتے ہیں۔ مثال پانچ منٹ یا آدھے گھنٹے کا مراقبہ، انسان کو واپس حال سے جوڑ دیتا ہے۔ Conscious Breathing شعوری طور پر سانسیں لینا بھی ماضی مستقبل و ذہنی دباؤ سے واپسی کا راستہ ہے۔ انا بھی ماضی کی مسند پر براجمان ہو جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں اور واقعوں میں الجھتی رہتی ہے۔ لہٰذا روحانی معالج سکھاتے ہیں کہ زندگی سے بھرپور گہری سانس لیں۔ زندگی کے اس لمحے کی نعمت کو محسوس کریں۔ ماحول سے رابطہ جوڑ لیں۔ لمحہ موجود میں واپسی، وجود کو سوچ و خیال کی وحدت عطا کرتی ہے۔

یہ وحدت ہر حوالے سے انسانی زندگی کی ضرورت ہے۔ یہ اجتماعی شعور کی صورت، معاشرتی زندگی کا یہ حل نکالیں کہ فرد کو انفرادی طور پر مضبوط اور مطمئن کرنا چاہیے اس سوچ سے فلاحی ریاستیں اور جمہوری رویے تشکیل پاتے ہیں، فلاحی رویے اور سوچ کی وسعت، ۔ انسان دوستی اور رواداری کو مضبوط کر دیتی ہے۔ کوئی بھی شخص جو ماحول سے غیر مطمئن و عدم تحفظ کا شکار ہو، ممکن ہی نہیں کہ وہ حال میں جی سکے۔ لیکن اس کی حال کی طرف واپسی، زندگی کی بہتری کا وہ دروازہ ہے جو اسے پریشانیوں سے باہر نکال لیتا ہے۔

خوشی کا تصور مادی اشیا کے حصول میں ہرگز نہیں ہے۔ یہ وجود کی وحدت سے جڑا ہوا ہے اگر انسان اپنی ذات میں مضبوط ہے تو وہ خوشی سے قریب تر ہے۔ ماضی کے سحرکو توڑ دینے سے پرانی اور نئی نسل کے رابطے فعال ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ماضی سے وابستہ بے لچک رویے سماجی زندگی میں خوشیوں کا گہرا خلا پیدا کر دیتے ہیں۔ ہر نیا دن کل جیسا نہیں ہوتا تبدیلی اور تغیر زندگی کی سرشست میں شامل ہے۔

مستقبل بھی حال کے لمحوں کا سب سے بڑا حریف ہے آپ نوجوان نسل کو ان کے سحر انگیز خوابوں سے واپس نہیں لا سکتے اگر ان کی تربیت سے وہ لمحے غیر موجود ہیں جنھیں حال کہا جاتا ہے۔ وقت کی قدروقیمت لمحوں کی اپنائیت اور استعمال کا سلیقہ ہر نسل بڑوں سے سیکھتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جدید دنیا مستقبل میں رہتی ہے، لیکن ان کی سمجھ ماضی اور حال سے ہرگزغافل نہیں ہے۔ ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حال کو بہتربنایا جا سکتا ہے۔ جب ہم مثبت سوچ اور ترتیب کو حال کے لمحوں پر صرف کرتے ہیں تو مستقبل بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔ لمحوں کی آگہی زندگی کے سچ سے قریب تر کر دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).