اسٹپنی


میں کالج کی بس میں پڑا ایک فاضل پہیہ ہوں۔ عام طور پر مجھے ”اسٹپنی“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ میرا یہ نام کیسے پڑا اس کے بارے میں میں کچھ بتانے سے قاصر ہوں۔ خیر نام سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میرا کام مشکل وقت میں بس کو عارضی سہارا فراہم کرنا ہے۔ ”اسٹپنی“ کا عہدہ عام طور پر انہی کے حصے میں آتا ہے جن سے مستقل گاڑی کا بوجھ اٹھانا مقصود نہیں ہوتا۔ میں اس مقام تک کیسے پہنچا وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ خیر اب سے کچھ دن پہلے میں ایک پنکچر والے کی دکان پر اپنے کچھ ساتھیوں سمیت موجود تھا۔

ایک صبح دکان پہ کالج کی ایک بس آ کر رُکی۔

بھائی کوئی مناسب سا پہیہ دکھا دیں۔ ”بس سے اترنے والے شخص نے میرے مالک سے کہا۔ “

آپ کو پہیہ مستقل استعمال کے لیے چاہیے یا پھر ”اسٹپنی“۔ ”مالک نے اس سے پوچھا۔ “

”نہیں ویسے تو گاڑی کے اپنے پہیے موجود ہیں۔ مجھے ان کے پنکچر ہونے کی صورت میں عارضی سہارے کے لیے چاہیے۔ جو قیمت میں بھی مناسب ہو۔ “

گاڑی کے ڈرائیور نے تفصیل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔

میں سمجھ گیا۔ یہ دیکھیں بالکل نئے جیسا ہے اور قیمت بھی بہت کم۔ ”مالک نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ “

کچھ ہی دن پہلے کی گئی پالش نے میرے رنگ و روپ کو نکھار دیا تھا۔

کیا قیمت ہے اس کی۔ ؟ ”ڈرائیور نے میرا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔ “

کچھ ہی دیر میں بھاؤ تاؤ ہونے کے بعد میں بس کی چھت پر بندھا کالج کی طرف رواں دواں تھا۔

۔ ۔

صبح کا وقت تھا۔ میں بس کی چھت پر موجود دور آسمان پر بلند ہوتے سورج کو دیکھنے میں محو تھا کہ اچا نک بس رک گئی۔ یہ ایک قدرے ویران اور پہاڑی علاقہ تھا۔

کیا ہُوا۔ ؟ ”کالج کے وائس پرنسپل کی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ “

پچھلا پہیہ پنکچر ہو گیا ہے۔ ”یہ آواز ڈرائیور کی تھی۔ “

”اوہ اب کیا ہوگا۔ یہاں تو آس پاس کوئی پنکچر والی دکان بھی موجود نہیں اور ابھی تو فاصلہ بھی کافی رہتا ہے۔ “

وائس پرنسپل صاحب کی آواز میں موجود پریشانی کو میں اوپر لیٹے بھی محسوس کر سکتا تھا۔

آج بچوں کا بہت اہم امتحان تھا، جو کے دوسرے شہر کے ایک بڑے کالج میں ہونا تھا۔ اس بات کا پتہ بھی مجھے صبح وائس پرنسپل کی زبانی چلا تھا جب وہ گاڑی صاف کرتے ڈرائیور کو بتا رہے تھے۔

اتنے میں کوئی بس کی چھت پر چڑھا اور اس نے مجھے کھول کر نیچے ڈرائیور کے قدموں میں پھینکا۔

اس وقت تک بچے بھی بس سے باہر آ چکے تھے اور ان کے چہروں پہ موجود فکر اور پریشانی میں اچھی طرح سے دیکھ سکتا تھا۔

”فکر نہ کریں سر جی۔ یہ“ اسٹپنی ”لگا دیتے ہیں۔ اور پھر آگے کسی دکان سے پنکچر لگوا لیں گے۔ “

بس کے ڈرائیور نے وائس پرنسپل سے کہا۔

”لیکن پنکچر لگواتے تو بہت دیر ہو جائے گی اور دو گھنٹے کا فاصلہ ابھی باقی ہے۔ آپ اس طرح کریں پہلے ہمیں کالج پہنچا دیں اور پھر جا کر پنکچر لگوا آنا۔ “

وائس پرنسپل نے گاڑی کا پہیہ کھولتے ڈرائیور سے کہا۔

ڈرائیور نے نظر بھر کے مجھے دیکھا۔ شاید وہ یہ جاننا چاہتا تھا کے میں اتنا فاصلہ طے کر پاؤں گا یا نہیں۔ اور پھر اس نے پنکچر پہیے کو چھت پر پھینکا اور مجھے اس کی جگہ پر لگانے لگا۔

چلیں سر۔ گاڑی تیار ہے۔ ”کچھ دیر بعد ڈرائیور نے آخری پیچ کستے ہوئے کہا۔ “

یہ سنتے ہی وائس پرنسپل اور بچوں کے چہروں پر اطمینان کے سائے لہرانے لگے۔ سب جلدی جلدی گاڑی میں سوار ہوئے اور سفر دوبارہ شروع ہوا۔

شروع میں میرے قدم ڈگمگائے اور میں بس کے بوجھ تلے دبتا چلا گیا۔ لیکن پھر بچوں کے چہروں پہ چھائی پریشانی اور فکر کا خیال آتے ہی ایک نیا جذبہ مجھ میں جاگا۔ مجھے گاڑی میں لگتا دیکھنے کے بعد جو اطمینان اور خوشی ان کے چہروں پر تھی مجھے اس کا بھرم قائم رکھنا تھا۔ یہ سوچتے ہی میں نے خدا کا نام لیا اور گاڑی کا بوجھ اٹھائے اس ناہموار اور بل کھاتے راستے پر باقی ساتھیوں کے ہمراہ دوڑنے لگا۔

خدا جانے کتنا فاصلہ طے ہو چکا تھا لیکن اب میری ہمت جواب دیتی جا رہی تھی۔ چھوٹے بڑے پتھروں پہ دوڑتے میری اوپری کھال جیسے چھلتی جا رہی تھی۔ آخر پہاڑی راستہ ختم ہوا اور گاڑی شہری حدود میں داخل ہوئی۔

اب سورج بھی سر پر آچکا تھا اور تارکول کی دھکتی سڑک میرے زخموں کو جلا رہی تھی۔ اچانک گاڑی نے تیز رفتاری سے ایک تنگ موڑ کاٹا اور سڑک کنارے لگے پول کے نکلے ہوئے لوہے نے میری بیرونی کھال کو جیسے اُدھیڑ کر رکھ دیا۔

میری سانس میرے جسم سے جُدا ہو رہی تھی لیکن بچوں کو ان کی منزل تک پہنچانے کا جذبہ مجھے زندہ رکھے ہوئے تھا۔ آخر کار گاڑی ایک بڑے سے گیٹ سے ہوتی ہوئی ایک عمارت کے اندر داخل ہوئی اور رُک گئی۔ بچے ہنستے مسکراتے گاڑی سے اترنے لگے۔ وہ مقررہ وقت پر وہاں پہنچ گئے تھے۔ ان کی خوشی دیکھ کر میں بھی چند لمحوں کے لیے اپنی تکلیف بھول گیا۔

سب اتر کر عمارت کے اندر جا چکے تھے اور کسی نے میری جانب دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا، میرے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی۔

شکر ہے وقت پہ پہنچ گئے۔ اب جا کے پنکچر لگوالو۔ ”وائس پرنسپل صاحب نے اندر جاتے ہوئے ڈرائیور سے کہا۔ “

گاڑی دوبارہ سٹارٹ ہوئی اور ساتھ ہی موجود ایک مکینک کے پاس جا رکی۔

اسکی حالت تو بہت خراب ہے۔ ”پنکچر والے نے مجھے گاڑی سے علیحدہ کرتے ہوئے کہا۔ “

”ہاں یہ اب ہمارے کسی کام کا نہیں رہا۔ آپ اصل پہیہ ٹھیک کر کے لگا دیں اور اِس کو ادھر ہی رہنے دیں۔ “

انسانوں کے بارے میں سنا تھا کہ وہ مطلب پرست ہوتے ہیں لیکن اس درجہ کی بے حسی۔ اب میری ہمت جواب دے گئی اور میں ہوش و حواس کھوتا چلا گیا۔

۔ ۔

اب میں پنکچر والے کے گھر میں موجود ہوں۔ مجھے اس کا بیٹا یہاں لے کر آیا ہے۔ وہ سارا دن ڈنڈے مارتا، مجھے گرم سڑک پہ بھگاتا ہے۔ لیکن میں خوش ہوں۔ بھلے انسان مطلب پرست ہے۔ اور کام نکل جانے کے بعد مڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ لیکن میں مطمئن ہوں کہ میں نے اپنا فرض پورا کیا اور جو ذمہ داری مجھ پہ ڈالی گئی تھی اس کو آخر تک نبھاتے ہوئے بچوں کو ان کی منزل پہ پہنچایا۔ انسان خود غرض تھے میں نہیں۔

محمد نعمان، اٹک
Latest posts by محمد نعمان، اٹک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).