معیشت کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے


ویسے تو تحریک انصاف نے ایک برس میں تین بجٹ پیش کیے لیکن 12 جون کو بقول ان کے ان کا اپنا پہلا بجٹ تھا جسے منظور کروانے میں دو سے زائد ہفتے لگ گئے۔ اس بجٹ کی منظوری میں سب سے بڑی رکاوٹ اپوزیشن تھی جن کا کہنا تھا کہ یہ عوام دشمن بجٹ ہے اور اس سے مہنگائی کا ایسا طوفان آئے گا جس کو سنبھالنا مشکل ہو گا۔

آپ ذرا پاکستان کی تازہ ترین اکنامکس سروے رپورٹ نکال کر مطالعہ کریں جس میں پاکستان کی تمام فنانشیل انڈی کیٹرز دہائی دے رہے ہیں کہ ملکی اکانومی کا سفینہ تیزی سے ڈوب رہا ہے اور اسے کوئی سہارا دینے والا نہیں ہے۔ کپتان کی غلطیوں سے یہ بحران سنگین ہوتا چلا جا رہا ہے۔ گروتھ ریٹ 6.2 فیصد سے گر کر 3.3 تک رہ گئی ہے اور جس تیزی سے تباہی ہو رہی ہے یہ شرح 2.4 تک جائے گی اور یہ گروتھ ریٹ گزشتہ دس برسوں میں سب سے نچلی سطح پر ہے۔

اس مالی سال میں روپے کی قدر جس تیزی سے گری اس کی مثال نہیں ملتی اور تمام تر نام نہاد اقدامات کے باوجود ڈالر 160 روپے پر اٹکا ہوا ہے جس کے اوپر جانے کے امکانات کو ردّ نہیں کیا جا سکتا اور تو اور افراطِ زر کی شرح گزشتہ دس برسوں کے بعد سب سے اونچی سطح پر کھڑی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح اس وقت 13 فیصد ہے۔

اب آتے ہیں قرضوں کی طرف تو یہ بات حیران کن ہے کہ گزشتہ ایک برس میں 16 بلین ڈالر قرضہ لیا گیا ہے۔ اس کا حساب پوچھیں تو جواب یہ آتا ہے کہ پہلے آپ گزشتہ دو حکومتوں کے قرضوں کا حساب دیں تو ہم جواب دہ ہوں گے۔ انصافیوں کو یہ بات ذ ہن نشین رکھنی چاہیے کہ دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادتیں آپ کی جیلوں میں ہے۔ اداروں پر آپ نے آئی ایم ایف سے بندے لا کر بٹھا دیے ہیں۔ پہلے اسد عمر نے معیشت کا بیڑا غرق کیا اور اب یہ کام حفیظ شیخ انجام دے رہے ہیں۔

شبیر زیدی سے ایف بی آر نہیں سنبھالی جا رہی۔ ان نا اہلوں نے ناتجربہ کاری کو اپنی طاقت بنا کر نان ایشوز میں پاکستان کی اکانومی کو پھنسا دیا ہے۔ شناختی کارڈ کی شرط پر اگر ڈیڈ لاک ہے تو اسے مرحلہ وار نافذ کر دیا جاتا تو بحران پیدا نہیں ہوتا۔ اب جی ٹی ایس کی شرح 17 فیصد رکھی گئی ہے، ا س پر ایک دلیل میں کہا گیا ہے کہ یہ شرح گزشتہ حکومت نے رکھی تھی ہم تو صرف عمل درآمد کروا رہے ہیں۔ تو عقل کے اندھوں اِس کے ساتھ یہ پرویڑن بھی پڑھ لیتے کہ گزشتہ حکومت نے جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد مرحلہ ووار نافذ کرنی تھی اور اس کے اطلاق کی مدت 8 برس رکھی گئی تھی۔

ایک انگریزی اخبار کی اطلاع کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کے ایک سال کے دوران پاکستان نے 16 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ لیا۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک سال کے دوران اتنا قرض لیا گیا ہو۔ یہ قرضہ حکومت نے بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ سے بچنے اور درآمدی بلوں کی ادائیگی کے لیے حاصل کیا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق 16 ارب ڈالر کا خطیر قرضہ مالی سال 2018۔ 19 کے دوران لیا گیا جس میں پی ٹی آئی حکومت کے 11 ماہ بھی شامل ہیں۔

16 ارب ڈالر میں سے 13.6 ارب ڈالر کا قرض پی ٹی آئی کی حکومت نے حاصل کیا جو ایک سال کے دوران کسی بھی حکومت کی جانب سے حاصل کردہ سب سے زیادہ قرضہ ہے۔ بقیہ 2.4 ارب ڈالر جولائی 2018 ء میں نگراں حکومت نے لیا۔ 16 ارب ڈالر کے قرض میں سے 5.5 ارب ڈالر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے لیے گئے۔ تاہم ذرائع کے مطابق وزارت اقتصادی امور رواں ہفتے قرض سے متعلق جو اعداد و شمار شائع کرے گی اس میں 5.5 ارب ڈالر کے اس قرض کو وفاقی حکومت کے حامل کر دو قرض کا حصہ نہیں دکھایا جائے گا۔

پی ٹی آئی حکومت مالی سال 2018۔ 19 میں لیے گئے قرض کا حجم 10.5 ارب ڈالر دکھائے گی۔ باقی 5.5 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کی بیلنس شیٹ میں درج کیے جائیں گے۔ ابتدائی طور پر چانیر سیف ڈپازٹ کے 2 ارب ڈالر بھی غیر ملکی قرض کا حصہ نہیں تھے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سے اب یہ رقم بھی وفاقی حکومت کے حاصل کردہ قرض میں شامل کی جائے گی۔ اس سلسلے میں وزارت خزانہ کے ترجمان ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب سے آئی ہوئی رقم اسٹیٹ بینک کے پاس ہے۔ یہ ڈپازٹس حکومت کے بجٹ سے متعلق آپریشنز کی فنانسنگ کے لیے دستیاب نہیں تھے۔ تاہم 5 ملین ڈالر کے یہ ڈپازٹس اسٹیٹ بینک کے ذخائر کا حصہ ہیں۔

آخر میں ایک اکنامک ٹرم کا مطلب سمجھانا چاہتا ہوں تا کہ بات کی سنگینی کی سمجھ آ سکے۔ اکنامکس میں ایک اصلاح استعمال ہوتی ہے جسے ضارب کہتے ہیں۔ ضارب کے تحت ملکی معیشت کو مدِنظر رکھ کر ایک ہندسہ مقرر کیا جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان کا موجودہ ضارب 9 ہے، جبکہ نواز شریف دور میں اس کی قدر 4.5 تھی۔ 9 ضارب کا مطلب ہے کہ اگر آپ کو ایک بلین کا نقصان یا فائدہ ہوا ہے تو ملکی معیشت اس پر ایک بلین نفع یا نقصان کا اثر 9 بلین کا ہو گا۔ اب دیکھ لیں کہ ہماری اکانومی کس تیزی سے انحطاط پذیر ہو رہی ہے اور اس کا اثر 9 سے ضرب دے کر آنے والے چند سالوں کے لیے نکالیں۔ اور اندازہ کریں نا اہل اور نالائق اعظم کے اقدامات کی قیمت چار برس بعد کیا ہو گی۔ ایک خوفناک منظر منتظر ہے ہمارا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).