سیلاب اور محرومیوں کی دلدل


جب آپ کے حدنگاہ پانی ہی پانی ہو، کہیں راہ فراراختیارکرنے کے لیے بھی خشک راستہ نظرنہ آئے، کشی ہو، نہ آپ تیراک ہوں، پانی گھرکی دہلیزپردستک دینے لگے، مکانوں کی دیواروں میں دراڑیں پڑجائیں اورانسان توانسان جانور، حتی کہ سانپ بھی جائے پناہ تلاش کرتے کرتے آپ کے گھروں میں داخل ہورہے ہوں، درختوں پرحشرات الارض کی اتنی تعدادہوکہ شیشم، کیکراورسفیدے کے تنوں پربھی آپ لٹک نہ سکتے ہوں، موبائل فون کی بیٹیریاں آخری سانسیں لے رہی ہوں توپھرانسان اپنی سانسیں گنتے ہوئے صرف خدا کی ذات پرہی بھروسا کرتاہے۔

اس صورتحال کاسامنامجھے دوہزارپندرہ کے سیلاب میں ہواجب دریائے چناب بپھرچکاتھا اورمیں رخصت پرلاہورسے اپنے گاؤں گیاہواتھا، انتہائی خوف کے سائے میں کس طرح میں نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کودیکھایہ ایک ناقابل فراموش داستان ہے اوراب جب پھرسیلابی موسم آیاہے تومجھے وہی دن یادآگئے ہیں جوشب وروزمیں نے دریائے چناب سے چندفرلانگ دورایک ڈیرے پرگزارے تھے۔

میڈیاکی خبریں دیکھ کرسیلاب متاثرین کی تکلیفوں کاوہ اندازہ نہیں لگایاجاسکتا جو انہیں کے درمیان کچھ دن گزارکر لگاسکتے ہیں اس لیے امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے افسران بند پرکھڑے ہوکریافضائی جائزے کی بجائے متاثرہ علاقے کے اندرجاکر تب تک قیام کریں جب تک لوگوں کی زندگی معمول پرنہیں آجاتی۔ ایسی صورت میں انہیں اندازہ ہوگا کہ سیلاب کے دنوں میں دریائی پٹی پررہنے والوں کے شب وروز کتنے مشکل ہوجاتے ہیں، ان کی راتیں کتنی خوفناک اوردن میں کس طرح خطرات کی تلواریں سر پرمنڈلاتی رہتی ہیں۔

جب ہرطرف پانی ہی پانی نظرآتاہے توپھرانہیں زمین پرصرف پانی اور اوپرنیلا آسمان نظرآتاہے، امید کی کرن ایسے لوگوں کے لیے کیاہے سوائے اس کے کہ وہ اپنے رب سے اس کافضل مانگتے رہیں۔ سیلابی پانی میں گھرے لوگ ان دنوں کیا کھاتے اورکیا پیتے ہیں، جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو پھر ان کاعلاج کیسے اورکون کرتاہے؟ ایمرجنسی کی صورت میں ان کا کون والی وارث ہوتاہے یا پھر ایسی صورت میں موت ہی نجات کا واحد راستہ ہے؟

حافظ آباد کے نواح میں واقع چک بھٹی ایک گاؤں ہے جہاں ابھی تک پرانے وقتوں کے مکان موجود ہیں، جہاں آج بھی قیام پاکستان سے قبل جب ہندو، سکھ اورمسلمان اکٹھے رہتے تھے، ان کی زندگی کے آثار، ان کے مکانات اورپرانا بازار موجود ہے، چناب کے کنارے بسنے والے لاکھوں افراد اورسینکڑوں دیہات کی طرح اس گاؤں میں بھی سیلاب کے دنوں میں مشکلات پیداہوجاتی ہیں۔

اس گاؤں کے ایک طرف نالہ گزرتا ہے جب کہ آبادی کے چاروں ا طراف ایک جوہڑے نے بانہیں پھیلا رکھی ہیں جس نے مچھروں کی افزائش اور بیماریاں جنم دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی، گاؤں میں ایک دیہی مرکزصحت ہے مگراہل دیہہ اوردیگرقریبی علاقوں کے لوگ یہاں اس وجہ سے نہیں آتے کہ ڈاکٹرکی دستیابی کا انہیں یقین نہیں، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہرگلی کی نکر پرایک عطائی ڈاکٹراپنے پر پُرزے نکال کر بیٹھا ہے جہاں مریض چھوٹا ہویا پھربڑا، انجکشن لازم ہوتاہے چاہے اس کانتیجہ جو بھی نکلے، عطائیوں کے عادی مریض بھی اب آدھے ڈاکٹر بن چکے ہیں اوروہ بھی ہرقسم کے مرض اورتکلیف میں عطائی سے انجکشن کاہی مطالبہ کرتے ہیں۔ ان نیم حکیموں کاسیلاب کے دنوں میں کاروبارخوب چمک اٹھتاہے کیوں کہ سیلاب میں بیماریاں ایسے پھوٹتی ہیں کہ ”رہے رب دا ناں“۔

بارشوں کے نتیجے میں دریاؤں میں سیلابوں کی آمدجاری ہے اورلوگوں کے دل دھڑک رہے ہیں، ایک طرف انہیں اپنی فصلیں تباہ وبرباد ہونے کاخدشہ ہے تودوسری طرف انہیں اپنے مکان، مال مویشی اوراپنی صحت کی فکردامن گیر ہے۔ تعلیم وآگاہی کی شرح دریائی دیہاتی علاقوں میں انتہائی کم ہے جہاں زیادہ ترلوگوں کو اپنے حقوق سے آگاہی نہیں اورنہ ہی وہ یہ جانتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری کیاہے اوررکن اسمبلی ان سے ووٹ لے کر آخر ان کے لیے کرتاکیاہے؟

پھر وہ اپنی آوازکیا اٹھائیں گے۔ کچھ کو علم نہیں اورکچھ با اثرشخصیات کے سامنے اونچابولنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ آخر ان بھولے شریف لوگوں کے بھی حقوق ہیں مگر کیا انہیں ان کے حقوق خود بخود مل پائیں گے؟ کیا اس بار تمام متاثرین سیلاب کونقصان کے ازالے کے نام پروعدے ہی سنناپڑیں گے یاپھرحقیقت میں بھی کچھ ہوگا؟ کیاسیلاب کے دوران انہیں فوری خوراک اورعلاج کی سہولت ہوگی یاپھرحکمت عملی بناکر صرف میڈیا کوہی بتائی جائے گی؟

کیاہیلی کاپٹرپربیٹھ کرفضائی جائزہ ہی لیاجائے گا یاپھرکوئی مردمجاہدافسرخود متاثرین کے درمیان بیٹھ کران کی مدداپنی نگرانی میں کرائے گا۔ سیلاب چاہے حافظ آباد کے نواحی علاقوں میں ہویاچنیوٹ کی دریائی پٹی پر، علاقہ جھنگ کا ہویاملتان کا، پوراپاکستان ہی جہاں جہاں سیلاب سے متاثرہوتاہے وہاں ہی لوگوں پرمصیبت بن کرآتاہے، حکومت موثرحکمت عملی بنائے گی توہی کسی کوفائدہ ہوگا ورنہ بے چاری عوام انہیں محرومیوں کی دلدل میں پھنسی رہے گی جس میں وہ کئی سالوں سے پھنسی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).